ملک میں حادثات سے سالانہ اوسطاً 30 ہزار اموات، پولیس اور شہریوں کی ذمہ داری کیا؟
پاکستان میں دہشتگردی سے سالانہ 5 ہزار لوگ مر جاتے ہیں دوسری طرف ٹریفک حادثات میں سالانہ لقمہ اجل بننے والوں کی تعداد 30 ہزار تک ہے۔
جدید دور میں انسان کو نقل و حمل میں ٹرانسپورٹ پر سب سے زیادہ انحصار کرنا پڑتا ہے۔ عالمی اداروں کی رپورٹ کے مطابق ترقی یافتہ ممالک میں 98 فیصد حادثات کے ذمہ دار وہاں کے لوگ ہوتے ہیں اور بد قسمتی سے پاکستان کا شمار بھی ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں لوگوں کی غفلت کی وجہ سے زیادہ حادثات ہوتے ہیں۔
ترقی یافتہ ممالک اپنے شہریوں کو محفوظ اور سستی سفری سہولیات فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ عوام کو ٹریفک قوانین پر عمل کرکے جانی نقصان سے بچاؤ کی آگاہی بھی دیتے ہیں۔ بدقسمتی سے قیام پاکستان سے لے کر اب تک ملک میں بحیثیت مجموعی پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام بہتر نہیں ہوسکا، نہ ہی شہریوں کو زیادہ اگاہی ہے کہ ٹریفک رولز پر عمل کرکے شہری کیسے زحمت اور حادثات سے بچ سکتے ہیں۔
حادثات کی رپورتنگ کے دوران یہ بات مشاہدے میں آتی ہے کہ تیز رفتاری ٹریفک حادثات کی سب سےبڑی وجہ ہے۔ شہری علاقوں میں سب سے زیادہ حادثات کا نشانہ ہیوی ٹریفک اور موٹر سائیکلوں پر سفر کرنے والے افراد بنتے ہیں۔ خصوصاً موٹرسائیکل چلانے والوں کوبہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ موٹر سائیکل کی وجہ سے 60 سے 70 فیصد حادثات رونما ہوتے ہیں۔ اگر موٹرسائیکل چلانے والا یا اس کے ساتھ سفر کرنے والا شخص تیز رفتاری کے باعث گرجائیں تو تو ان کے جاں بحق یا شدید زخمی ہونے کے پچاس فیصد امکانات ہوتے ہیں۔ ہیلمٹ نہ پہننے کے باعث موٹر سائیکل سواروں کے سر پر آنے والی چوٹ بھی جان لیوا ثابت ہوتی ہے۔
مختلف سماجی اداروں کے سروے اور اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں روزانہ چھ ہزار موٹرسائیکلوں اور تین سو کاروں کا اضافہ ہو رہاہے۔ صرف سندھ میں ہرسال تین ہزارسے زائد لوگ ایکسیڈنٹ سے جاں بحق ہوجاتے ہیں، لیکن انفراسٹرکچر میں بہتری نہیں ہورہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خستہ حال سڑکوں پر بے ہنگم انداز میں چلنے والا ٹریفک بعض اوقات جان لیوا ثابت ہورہا ہے۔
ڈی آئی جی موٹر وے علی شیر جاکھرانی کے مطابق ٹریفک مسائل اور عوامی اگاہی کے حوالے سے پاکستان میں صورتحال زیادہ بہتر نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت کو چاہیے کے وہ ڈرائیورز کو باقاعدہ تربیت دیں تاکہ ان کے ساتھ باقی لوگوں کی جان و مال کو محفوظ بنایا جاسکے۔ یہ بھی ایک المیہ ہے کہ کراچی جیسے بین الاقوامی شہر میں کوئی سرکاری ڈرائیونگ اسکول نہیں۔ ٹریفک حادثات کی روک تھام صرف پولیس کی ذمہ داری نہیں، اس کے لئے شہریوں کو بھی اپنے فرائض جاننا ہوں گے اور ان پرعمل بھی کرنا ہوگا۔ پاکستان میں لوگ ٹریفک رولزکا خیال نہیں رکھتے، لیکن بیرون ملک جا کر یہی لوگ رولز پر مکمل عمل کرتےہیں۔ شہر میں ہیوی ٹریفک کے داخلے اور اس کے سبب حادثات کی بابت ڈی آئی جی موٹر ویز کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بھی دنیا بھر کی طرح خام مال اور اجناس کی ترسیل ریلوے نظام کے تحت ہوتی ہے، لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں انگریز کے دور کا ریلوے نظام ہے جسے مزید بہتر اور جدید بنانے کے لئے بہت زیادہ کام نہیں کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ خام مال اور اجناس کی ترسیل کے لئے ہیوی ٹریفک پر انحصار بڑھ گیا ہے۔ ہائی ویز سے اندرون شہر مال بردار گاڑیوں کے داخلے کے مقام اور مخصوص اوقات کا تعین نہیں ہوا۔ یہ بھی ایک وجہ ہے جس کی وجہ سے ٹریفک حادثات بڑھ رہے ہیں۔
قائد اعظم یونیورسٹی اف اسلام اباد کے شعبہ سماجیات کے چیئرمین ڈاکٹر محمد زمان پاکستان کے سماجی مسائل پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ریاست پاکستان روڈ سیفٹی اور ٹریفک قوانین کو نافذ کرنے کے لیے نہ صرف موثر اقدامات اٹھائے بلکہ ترقی یافتہ ممالک سے 2 قدم آگے سوچ کر یہاں کا نظام بہتر بنائے۔ ریاست اور اس کے اداروں کو ایسے قوانین بنانے ہوں گے جن سے ٹریفک قوانین کی پیروی ہو سکے۔ اس کے ساتھ ہی الیکٹرانک نگرانی کا مؤثر نظام بھی بنانا ہوگا جس میں کیمروں اور مائکرو چپ کا استعمال عام کرنا ہوگا۔ جرمانے کی شرح زیادہ کرنی ہوگی، کیوں کہ بھاری جرمانوں کی مدد سے ہی ڈرائیورز حضرات قانون کے پاسدار بنیں گے۔
ریاست پاکستان کا اس مسئلے پر باشعور ہونا اب بہت ضروری ہو چکا ہے اور یہ ضروری ہے کہ یہ شہریوں کے سماجی اور صحت کے مسائل کے تدارک کو یقینی بنائے۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت کو ایسا رویہ بھی اپنانا ہوگا کہ عوام ان کے ساتھ مثبت تعاون کے لیے تیار ہوں اور ملکی نظام بہتر سمت کی جانب گامزن ہو سکے۔ گاڑی چلانے والا کار چلا رہا ہو یا موٹرسائیکل، اس کے رویے میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔