ایک لمحے کی مٹی، ایک عمر کا سبق

انجینئر بخت سید یوسف زئی
(بریڈ فورڈ، انگلینڈ)
اس دن کی خاموشی آج تک میرے دل میں گونجتی ہے۔ وہ ایک عام دن تھا مگر میرے لیے زندگی کا سب سے بڑا سبق بن گیا۔ میں قبر کے کنارے کھڑا تھا اور سامنے وہ منظر تھا جو ہر انسان کو ایک دن دیکھنا ہی ہے۔ مٹی کے نیچے ایک انسان جارہا تھا، جس نے کبھی ہنسا تھا، بولا تھا، خواب دیکھے تھے، لوگوں کو خوش کیا تھا۔ آج وہ سب ختم ہوچکا تھا۔ اردگرد سب کے چہروں پر سکوت چھایا ہوا تھا۔ کچھ آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئی تھیں، کچھ لب دعا مانگنے کے لیے ہل رہے تھے اور کچھ چہرے بس خاموشی سے زمین کو دیکھ رہے تھے۔ اُس لمحے مجھے محسوس ہوا کہ زندہ لوگ ہمیشہ نیچے دیکھ رہے ہوتے ہیں اور اگر مُردے کی روح اسی دنیا میں ہوتی تو شاید وہ اوپر ہماری طرف دیکھ رہا ہوتا مگر نہیں، وہ تو جاچکا تھا، ایک ایسے سفر پر جو واپس نہیں آتا۔ میں نے محسوس کیا کہ قبر کا منظر انسان کے غرور کو کس طرح پاش پاش کردیتا ہے۔ جو کبھی اپنی زندگی میں فخر سے چلتا تھا، آج بالکل خاموش لیٹا ہوا تھا۔ جو کبھی لوگوں کے درمیان مسکراہٹوں کا مرکز تھا، آج زمین کی گود میں دفن ہورہا تھا۔ اُس لمحے مجھے اپنے اندر ایک عجیب لرزہ محسوس ہوا، جیسے دل نے کہا ہو، یہ انجام تمہارا بھی ہے۔ وہ لمحہ، وہ خاموشی، وہ ہوا کا رُک جانا، سب کچھ ایک پیغام دے رہا تھا کہ زندگی جتنی بھی حسین لگے، ایک دن یہ سب ختم ہوجائے گا۔
میں نے اس لمحے جانا کہ موت کسی کے لیے اجنبی نہیں۔ یہ تو وہ وعدہ ہے جو ہر نفس نے پورا کرنا ہے۔ آج وہ گیا، کل میری باری ہے۔ میں نے اپنے دل میں ایک انجانا خوف محسوس کیا، خوف موت کا نہیں، بلکہ اس دن کا جب میں اکیلا اپنی قبر میں اتروں گا اور میرے ساتھ کوئی نہیں ہوگا۔ میرے والد، میرے دوست، میرا خاندان، سب پیچھے رہ جائیں گے۔ صرف میرے اعمال میرے ساتھ ہوں گے، چاہے وہ نیک ہوں یا برے۔ اس منظر نے میری سوچ بدل دی۔ میں نے سمجھا کہ انسان اپنی زندگی میں کتنی غیر ضروری چیزوں کے پیچھے بھاگتا ہے۔ دولت، عزت، شہرت، لوگوں کی تعریفیں، لیکن جب آخری لمحہ آتا ہے، تو یہ سب بے معنی ہوجاتا ہے۔ قبر میں نہ کپڑے کام آتے ہیں، نہ جائیداد، نہ عہدہ، نہ تعلقات۔ وہاں بس ایمان ہوتا ہے اور وہ اعمال جو خلوص سے کیے گئے ہوں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں فرمایا: "ہر نفس کو موت کا مزا چکھنا ہے، پھر تم سب ہماری ہی طرف لوٹائے جاؤ گے۔” (سورۃ العنکبوت: 57)
اس آیت کو میں نے زندگی میں کئی بار سنا تھا مگر اُس دن جب قبر کے سامنے کھڑا تھا تو اس کا مفہوم میرے دل میں اُترگیا۔ یہ الفاظ اب ایک حقیقت بن چکے تھے۔ میں نے سوچا، ہم سب موت کی راہ پر ہیں، بس کسی کا سفر پہلے مکمل ہوتا ہے، کسی کا بعد میں۔ جب میں نے مٹی کے آخری ذرات اُس قبر پر ڈالتے دیکھا، تو میرا دل کانپ اٹھا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب زمین ایک انسان کو اپنے اندر سمولیتی ہے۔ چند لمحوں میں وہ شخص جو کبھی زندہ تھا، اب مٹی کا حصہ بن جاتا ہے۔ انسان سمجھتا ہے کہ وہ سب کچھ چھوڑ آیا ہے، مگر حقیقت میں وہ اپنے اصل گھر میں پہنچ گیا ہوتا ہے، قبر میں۔
میں نے خود سے پوچھا، "کیا میں تیار ہوں اُس لمحے کے لیے؟” دل نے جواب نہیں دیا، صرف خاموشی چھاگئی۔ اس خاموشی میں ایک چیخ تھی، روح کی چیخ، جو کہہ رہی تھی کہ ابھی وقت ہے، ابھی بدل جا، ابھی تیاری کرلے مگر افسوس، ہم اکثر موت کو دوسروں کے لیے سمجھتے ہیں۔ ہم سوچتے ہیں، “ابھی بہت وقت ہے”، لیکن موت کبھی وقت نہیں دیتی۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اکثر اُس چیز کو یاد کیا کرو جو لذتوں کو ختم کردیتی ہے۔(حدیث ترمذی)
میں نے اس حدیث کو اُس دن پہلی بار دل سے سمجھا۔ موت کا ذکر اداسی کے لیے نہیں، بیداری کے لیے ہے۔ یہ ہمیں جگاتی ہے، ہمارے دلوں کو نرم کرتی ہے اور ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ہم یہاں ہمیشہ کے لیے نہیں۔ اس دن کے بعد میں نے اپنی زندگی پر نظر ڈالی۔ مجھے احساس ہوا کہ میں نے کتنا وقت فضول باتوں میں ضائع کیا، کتنی بار دوسروں کو دُکھ دیا، کتنی بار دنیا کے پیچھے بھاگا مگر آخرت کے لیے کچھ نہ کیا۔ ہم اپنی ظاہری زندگی سنوارتے ہیں مگر دل کو بھول جاتے ہیں۔ ہم گھروں کی دیواریں رنگتے ہیں، لیکن اپنی روح کی دراڑوں کو نہیں بھرتے۔ جب رات ہوئی اور میں گھر واپس آیا، تو سب کچھ خاموش تھا۔ مگر میرے دل کے اندر طوفان تھا۔ میں نے اپنے بستر پر لیٹ کر آنکھیں بند کیں تو قبر کا وہ منظر بار بار سامنے آتا رہا۔ میں نے سوچا، اگر آج میری باری ہوتی؟ اگر آج لوگ میرے لیے مٹی ڈال رہے ہوتے؟ کیا میرے پاس جواب ہوتا؟ کیا میرے اعمال روشنی بنتے یا اندھیرا؟ میں نے فیصلہ کیا کہ اب زندگی کو بدلنا ہے۔ اب میں اپنی ترجیحات نئے سرے سے طے کروں گا۔ اب میرے لیے سب سے بڑا مقصد یہ ہوگا کہ جب میری روح نکلے تو اللہ مجھ سے۔ میں نے دل میں نیت کی کہ اب ہر دن کو آخری دن سمجھ کر گزاروں گا۔ میں نے جانا کہ اصل دولت ایمان ہے۔ اصل سکون اللہ کی یاد میں ہے، جو دل اللہ سے جڑا ہو، وہ کبھی خالی نہیں ہوتا۔ دنیا کی خوشیاں وقتی ہیں مگر اللہ کی رضا ابدی ہے۔ اب جب میں کسی جنازے میں جاتا ہوں تو بس ایک بات دل میں گونجتی ہے، “آج وہ گیا، کل میری باری ہے۔” یہ سوچ دل کو جھنجھوڑ دیتی ہے۔ میں ہر جنازے کو موت کا پیغام سمجھتا ہوں، ہر قبر کو ایک یاد دہانی۔
زندگی کا بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ ایک دن مرنا ہے، پھر بھی ایسے جیتے ہیں جیسے کبھی نہیں مریں گے۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ ہر سانس ہمیں قبر کے قریب لے جارہی ہے۔ موت کا ذکر دل کو توڑنے کے لیے نہیں، اسے جگانے کے لیے ہے۔ وہ دل جو دنیا کے پیچھے دوڑتے دوڑتے تھک گیا ہے، وہ موت کے ذکر سے نرم ہوتا ہے، اللہ کے قریب ہوتا ہے۔ آخر میں، میں نے اللہ سے دعا مانگی:
اے اللہ! جب میرا وقت آئے، تو میرا ایمان سلامت رکھ۔ میری روح کو سکون سے نکال، میری قبر کو جنت کا باغ بنادے اور میرے اعمال کو میرے لیے روشنی بنا۔ مجھے ایسی موت عطا فرما جو ایمان پر ہو اور ایسا انجام جو تیری رضا میں ہو۔
اللّٰهُمَّ أَحْسِنْ خَاتِمَتَنَا
اے اللہ! ہمیں بہترین انجام عطا فرما، ہمارے دلوں کو اپنی یاد سے آباد رکھ اور ہماری قبروں کو اپنے نور سے روشن کردے۔