مسلمانوں کا خطرناک دشمن

تحریر: مصطفیٰ وسیم، لاہور
(نہم جماعت کے طالبعلم)
اگر آپ 2022 میں غزہ کی صورت حال کا موجودہ حالات سے موازنہ کریں تو آپ کو نظر آئے گا کہ حقیقی جنگی جرائم اور نسل کشی ایک ملک کو کس طرح تباہ کردیتے ہیں۔ ایک ملک کے مسلسل حملوں کی وجہ سے پورا طرزِ زندگی، معیشت، سب کچھ زمین بوس ہوجاتا ہے۔ اکثر لوگ اس مسئلے کو سیدھے الفاظ میں بیان کرتے ہیں، لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ ہمیشہ ہم سے ایک قدم آگے کیسے رہتے ہیں؟ ایسا لگتا ہے، جیسے ان کی نظریں ہر وقت ہم پر ہوتی ہیں— اور یہی اصل بات ہے۔ سب سے خطرناک دشمن وہ ہوتا ہے جو ہمارے ملک کے ہر کونے کھدرے سے واقف ہوتا ہے جب کہ ہمیں یہ تک معلوم نہیں ہوتا کہ "صہیونیت” (Zionism) کا مطلب کیا ہے۔
"صہیونیت” کی اصطلاح سب سے پہلے تھیوڈور ہرزل نے 1897 میں استعمال کی۔ یہ ایک تحریک تھی جس کا مقصد یہ تھا کہ یہودی ایک خودمختار ریاست کے قیام کے لیے فلسطین کو آباد کریں۔
1930 کی دہائی میں جب دوسری جنگ عظیم اپنے عروج پر تھی، نازی حکومت کے سربراہ ایڈولف ہٹلر نے ہولوکاسٹ کا آغاز کیا، جس کا مقصد یہودیوں کی نسل کشی تھا، قریباً 60 ہزار یہودی ہٹلر سے بچنے کے لیے فلسطین میں پناہ گزین ہوئے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد مارچ 1947 میں سرد جنگ کا آغاز ہوا، جس کے نتیجے میں بہت سے نام نہاد مہاجرین کو قبرص کے حراستی کیمپوں میں رکھا گیا۔ آخرکار، ڈیڑھ لاکھ یہودی غیر قانونی طور پر فلسطین میں داخل ہوئے، جس کے بعد مئی 1948 میں اسرائیل کا قیام عمل میں آیا۔
اسرائیل کو اس عمل پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور اس نے فلسطین کے ایک حصے پر غیر قانونی قبضہ کرلیا۔ 1967 میں اسرائیل نے فلسطین کے مزید علاقے کو طاقت کے زور پر اپنے ساتھ شامل کرلیا، جو جنیوا کنونشن کی خلاف ورزی ہے۔ اگرچہ اس مسئلے کو عالمی سطح پر اٹھایا گیا، لیکن اقوامِ متحدہ نے فلسطین کو تقسیم کرنے کے حق میں ووٹ دیا، جس میں دونوں فریقین کے دعووں کو جائز قرار دیا گیا۔ یہ ایک متنازع فیصلہ تھا کیونکہ کسی بھی عرب ملک نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا۔ اس کے بعد یہ تنازع وقتاً فوقتاً جاری رہا یہاں تک کہ 5 اگست 2022 کو اسرائیلی فوج (IDF) نے غزہ پر 147 فضائی حملے کیے، جس کے جواب میں فلسطین نے اسرائیل کی طرف ہزار راکٹ فائر کیے۔ یہ جھڑپ 7 اگست تک جاری رہی۔
پھر 7 اکتوبر 2023 کو، غزہ پر حکومت کرنے والے عسکری گروپ "حماس” نے اسرائیل پر اچانک حملہ کردیا، جس کے بعد غزہ میں آج تک جاری نسل کشی کا آغاز ہوا۔ اب اسرائیل نے ایران کو بھی نشانہ بنانا شروع کردیا ہے۔
افسوس کہ اقوامِ متحدہ، جو دعویٰ کرتی ہے کہ وہ تمام ممالک کے حقوق کی حفاظت کرتی ہے، ابھی تک اس صورت حال کو قابو میں نہ لاسکی۔ وہ فلسطین کے حق میں کھڑی نہیں ہوئی، بنیادی ضروریاتِ زندگی کی فراہمی میں بھی ناکام رہی ہے— بلکہ وہ اس یک طرفہ جنگ میں اسرائیل کی حمایت کررہی ہے۔