بھارت کا خطرناک کھیل

دانیال جیلانی
ایک بار پھر بھارت نے سندھ طاس معاہدے کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے دریائے چناب پر دلہستی اسٹیج ٹو پن بجلی منصوبے کی منظوری دے کر پاکستان کے جائز آبی حقوق کو چیلنج کیا ہے۔ یہ اقدام نہ صرف بین الاقوامی معاہدوں کی روح کے منافی ہے بلکہ خطے میں پہلے سے موجود کشیدگی کو مزید بڑھانے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ نائب صدر پاکستان پیپلز پارٹی سینیٹر شیری رحمان کی جانب سے اس بھارتی اقدام کی سخت مذمت اس بات کی عکاس ہے کہ پاکستان اس آبی جارحیت کو کسی صورت نظرانداز نہیں کرسکتا۔ سندھ طاس معاہدہ 1960 میں عالمی ضمانتوں کے تحت طے پایا تھا اور اسے دنیا کے کامیاب ترین آبی معاہدوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس معاہدے کے تحت پاکستان کو مغربی دریاؤں، خصوصاً چناب، جہلم اور سندھ کے پانی پر تسلیم شدہ حقوق حاصل ہیں۔ بھارت کی جانب سے اس معاہدے کو یک طرفہ طور پر معطل کرنے یا اس کی خلاف ورزی کی کوششیں نہ صرف بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہیں بلکہ عالمی امن و استحکام کے لیے بھی خطرناک ثابت ہوسکتی ہیں۔
شیری رحمان نے بجاطور پر اس امر کی نشان دہی کی ہے کہ دلہستی اسٹیج ٹو منصوبہ پاکستان کی آبی، زرعی اور ماحولیاتی سلامتی کے لیے سنگین خطرات پیدا کرسکتا ہے۔ پاکستان کا زرعی نظام بڑی حد تک دریاؤں کے پانی پر انحصار کرتا ہے اور کسی بھی غیر معمولی یا اچانک کمی سے نہ صرف فصلیں متاثر ہوں گی بلکہ غذائی تحفظ بھی داؤ پر لگ سکتا ہے۔ چناب میں پانی کے بہاؤ میں غیر معمولی کمی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ بھارت پانی کو بطور ہتھیار استعمال کررہا ہے۔ یہ منصوبہ دفاعی اور تزویراتی لحاظ سے بھی پاکستان کے لیے نقصان دہ ہوسکتا ہے۔ پانی کی دستیابی کسی بھی ملک کی قومی سلامتی سے جڑی ہوتی ہے اور اگر ایک ملک دوسرے کے پانی پر اجارہ داری قائم کرنے کی کوشش کرے تو اس کے نتائج انتہائی سنگین ہوسکتے ہیں۔
مزید یہ کہ بھارت کی یہ یک طرفہ اور جارحانہ پالیسی نہ صرف پاکستان کے حقوق کی پامالی ہے بلکہ بین الاقوامی قانون اور انسانی ہمدردی کے اصولوں کی بھی صریح خلاف ورزی ہے۔ عالمی سطح پر پانی کے وسائل کو مشترکہ مفاد کے تحت استعمال کرنے کی تاکید کی گئی ہے، اور ہر اقدام جو اس توازن کو بگاڑے، خطے میں وسیع پیمانے پر بحران پیدا کرسکتا ہے۔ اگر عالمی برادری اس مسئلے پر فوری اور واضح موقف اختیار نہیں کرتی تو بھارت کو یہ احساس ہوسکتا ہے کہ وہ کسی بھی حد تک اپنی یک طرفہ پالیسی جاری رکھ سکتا ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ نہ صرف سفارتی سطح پر بلکہ عالمی عدالتی فورمز پر بھی اپنی آواز بلند کرے، تاکہ بھارت کی آبی جارحیت کے سنگین نتائج کے بارے میں واضح پیغام دیا جاسکے۔ سندھ طاس معاہدہ کسی ایک ملک کی صوابدید نہیں بلکہ بین الاقوامی قانون کے تحت تسلیم شدہ دستاویز ہے، جس کی خلاف ورزی عالمی برادری کی ذمے داری ہے کہ وہ اسے روکنے میں کردار ادا کرے۔
پاکستان کے لیے پانی محض قدرتی وسیلہ نہیں بلکہ ایک ریڈ لائن ہے، جس پر کوئی سمجھوتا ممکن نہیں۔ بھارت اگر ایسے یک طرفہ اقدامات سے باز نہ آیا تو خطے میں عدم استحکام بڑھے گا اور اسے ماضی کی طرح سخت سفارتی، سیاسی اور اقتصادی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ خطے کے امن، ترقی اور استحکام کا تقاضا یہی ہے کہ بھارت بین الاقوامی معاہدوں کی پاسداری کرے، آبی جارحیت سے باز آئے اور مسائل کو مذاکرات کے ذریعے حل کرے، کیونکہ پانی پر سیاست نہیں بلکہ تعاون ہی پائیدار امن کی ضمانت ہوسکتی ہے۔ پاکستان اس معاملے میں کسی رعایت کا متحمل نہیں ہوسکتا اور عالمی فورمز پر اپنی پوزیشن مضبوطی سے پیش کرے گا، تاکہ بھارت کے خطرناک عزائم بے نقاب ہوں اور خطے میں پانی کے وسائل پر کسی بھی طرح کی اجارہ داری کی کوشش ناکام بنائی جاسکے۔