وفاقی کابینہ سے تینوں سروسز چیفس اور عدلیہ سے متعلق قوانین میں ترمیم کی منظوری
اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں متعلقہ قوانین کو ستائیسویں آئینی ترمیم سے ہم آہنگ کرنے کے حوالے سے اہم فیصلے کیے گئے۔
وزیراعظم آفس سے جاری بیان کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس آج پارلیمنٹ ہاؤس، اسلام آباد میں منعقد ہوا، اجلاس میں متعلقہ قوانین کو ستائیسویں آئینی ترمیم سے ہم آہنگ کرنے کے حوالے سے اہم فیصلے کیے گئے۔
وفاقی کابینہ نے پاکستان آرمی ایکٹ، پاکستان ایئرفورس ایکٹ اور پاکستان نیوی ایکٹ میں ترامیم کی منظوری دے دی، ان ترامیم کا مقصد افواج پاکستان سے متعلق قوانین کو ستائیسویں آئینی ترمیم سے ہم آہنگ کرنا ہے۔
آئین کے آرٹیکل 243 میں جو ترامیم کی گئی ہیں، ان کی بنیاد پر ضروری قانون سازی کی گئی ہیں، جس میں چیف آف ڈیفنس فورسز کے عہدے کی میعاد بھی شامل ہے۔
ان ترامیم کے تحت چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی کا عہدہ موجودہ چیئرمین کی ریٹائرمنٹ کے بعد ختم ہوجائے گا۔
اسی طرح سے ان قوانین میں فیلڈ مارشل، مارشل آف دی ایئرفورس، ایڈمرل آف دی فلیٹ کے عہدے بھی شامل کیے گئے ہیں۔
یہ اسکیم اور متعلقہ قوانین میں ترمیم ہم عصر اور جدید جنگی تقاضوں کو سامنے رکھ کر تجویز کی گئی ہیں۔
وفاقی کابینہ نے فیڈرل کانسٹی ٹیوشنل کورٹ (پروسیجر اینڈ پریکٹس) ایکٹ، 2025 کے مسودے کی بھی منظوری دے دی۔
وفاقی کابینہ نے اقتصادی رابطہ کمیٹی کے 7 نومبر، 2025 کو ہونے والے اجلاس میں کیے گئے فیصلوں کی توثیق کردی۔
کابینہ اجلاس کے بعد گفتگو کرتے ہوئے وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا کہ آرمی ایکٹ میں متعلقہ ترمیم کی جارہی ہے، آئینی ترمیم کے ذریعے نیا عہدہ تشکیل دیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ فیلڈ مارشل کے ساتھ نیوی اور ایئرفورس کے عہدے بھی تشکیل دیے گئے ہیں، آئینی بینچ کی جگہ ستائیسویں آئینی ترمیم کے تحت آئینی عدالت بننے جارہی ہے، آئینی بینچ کے قیام سے متعلق قانون واپس لیا جارہا ہے۔
اجلاس کے بعد وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ آئین میں ترمیم ہوچکی، جو اب دستور کا حصہ ہے، کچھ ضروری قانون سازی ہے جو اب کی جائے گی۔
وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے کہا کہ آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد متعلقہ قوانین میں بھی ترمیم کرنی پڑتی ہے۔