شَبِ قَدَر لَیْلَۃُالْمُبَارْکَہ
ایک رات جو ہزار راتوں سے افضل ہے، ایک رات جس میں عِبادت کرنے سے ٨٢ سال عِبادت کرنے کا ثواب مِلتا ہے اور اُس رات ربُّ العالمین آسمانِ دُنیا پر نَزول فرما کر اپنے بندوں کو نِدا دیتا ہے اور رجوع کرنے والے کو وہ چیز عطاء کرتا ہے جو وہ مانگتا ہے، اور تمام صَغیرہ گناہ بخش دیتا ہے کیونکہ ایک حدیث پاک (علیہ السلام) ہے کہ کَبیرہ گُناہ صرف "تَوبہ” سے مُعاف ہوتے ہیں.
ایک رات جس کی فضیلت میں اللّٰہ کَریم نے قُرآن پاک میں ایک پوری سُورۃ نازل کی اور اِس کے علاوہ بھی مُتَعَدد مقامات پر اِس رات کا ذکر کیا جیسے سُورۃ الدُخان اور سُورۃ البَقرہ وغیرہ.
اور اللّٰہ کریم نے اپنا آخری ہِدایت نامہ بھی اِس بابَرکات مہینے کی با برکت رات میں نازل کیا اور اپنے آخری نبی (صل اللہ علیہ والہ وسلم) کو بھی اِسی مہینے میں مَبعوث کیا.
اور اِس کے علاوہ نبی (علیہ السلام) نے بھی بے شمار احادیث اِس رات کی فضیلت کے بارے میں بیان کیں.
ایک حدیث میں آقا (علیہ السلام) نے فرمایا (مفہوم) کہ میں نے رمضان کے پہلے اور دوسرے عَشرے میں اِس رات کو تلاش کیا لیکن نہیں پایا، پھر ایک فرشتے نے آکر بتایا کہ آپ اِسے آخری عَشرے کی طاق راتوں میں تلاش کریں، پھر نبی (علیہ السلام) نے فرمایا جو میرے ساتھ اعتکاف کرنا چاہتا ہے کر لے.
ایک اور حدیث ہے (مفہوم) کہ حضور (علیہ السلام) ایک مرتبہ اپنے گھر سے نکلے یہ بتانے کے لیے کہ وہ رات کب آتی ہے لیکن دو صحابی آپس میں کسی مسئلہ پر جھگڑ رہے تھے تو نبی رحمت (علیہ السلام) نے فرمایا: تمہارے جھگڑے کی وجہ سے اللّٰہ نے مجھے وہ رات بُھلوادی اور ہو سکتا اِسی میں تُمہارے لیے بہتری ہو، تو اب تُم اُسے آخری عَشرے کی طاق راتوں یعنی ٢١،٢٣،٢٥،٢٧ اور ٢٩ میں تلاش کرو.
نبی علیہ السلام نے اِس رات کی کچھ نشانیاں بیان کی ہیں:
نبی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ (مفہوم) جس دِن صبح کے وقت میں نماز سے فارغ ہؤنگا تو میری پیشانی پر کیچڑ (مَٹی) لگی ہوگی اور ایک بار بارش کی وجہ سے ایسا ہی ہوا، اور ابُو سَعید خُدری کہتے ہیں وہ ٢١ رمضان المبارک کی رات تھی.
لیکن دوسرے صحابی عبداللّٰہ بِن اُنَیْس اِسی حدیث کے آگے کہتے ہیں کہ وہ رات ٢٣ رمضان المبارک کی رات ہے.
ایک اور روایت میں ایک صحابی اُبی بنِ کَعَب کہتے ہیں کہ وہ رات ٢٧ رمضان المبارک کی رات ہے.
اور ایک روایت میں عبداللّٰہ اِبنِ مَسعُود کہتے ہیں کہ جو روز رات کے آخری پَہَر اُٹھ کر عِبادت کرے گا تو وہ اُس رات کو پالے گا، حالانکہ اُن کو پتا تھا کہ وہ رات رمضان المبارک کے آخری عَشرے میں ہے، لیکن وہ چاہتے تھے کہ لوگ روز اللّٰہ کی عِبادت زُوق و شوق سے کریں.
ایک اور روایت میں ہے کہ نبی (علیہ السلام) نے فرمایا کہ: (مفہوم) اُس رات کے بعد جب اگلے دِن کا سورج طلوع ہوگا تو اُس کی شُعائیں نہیں ہونگیں، ایک اور مَقام پر ارشاد فرمایا کہ شبِ قَدَر والی رات نہ تو زیادہ ٹھنڈ ہوگی نہ ہی زیادہ گرمی، یعنی موسَم اچھا ہوگا.
اِن روایات سے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ یہ رات اُن
پانچ (٥) طاق راتوں میں گھومتی ہے، اور ہر صحابی نے جس رات کو شبِ قَدَر کہا ہے تو اُنھوں نے نبی (علیہ السلام) کی بتائی گئی نشانیوں کے تَحت اُس سال اُسی رات شبِ قَدَر کو پایا ہے.
تو ہمیں بھی اِن پانچوں طاق راتوں میں بھرپور انداز سے عِبادت کرنی چاہیے.
سَیَّدہ عائشہ کہتی ہیں کہ نبی (علیہ السلام) رَمضان المُبارک کے آخری عَشرے میں باقی دِنوں کے مقابلے زیادہ زُوق و شوق سے عِبادت کرتے اور اپنے گھر والوں کو بھی عِبادت کے لیے بیدار کرتے اور اُبھارتے.
اِن تمام قُرآنی آیات، احادیث رسول (علیہ السلام) اور صحابہ کے فَرَامین سے اِس رات میں عِبادت کرنے کی فضیلت اور ثواب کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے،
اللّٰہ رَبُّ الْعِزَّت ہم سب کو اِس بابرکت رات میں عِبادت کرنے کی توفیق دے اور یہ بابرکت رات نصیب فرمائے.