سرویکل ویکسین: صحت مند مستقبل کی ضمانت

تحریر: مہروز احمد
پاکستان بھر میں سرویکل کینسر سے بچائو کی مہم جاری ہے اور 9 سے 14 سال تک کی بچیوں کو سرویکل کینسر سے بچائو کی ویکسین لگائی جارہی ہے۔ دنیا بھر میں خواتین کو درپیش صحت کے سنگین مسائل میں سے ایک سرویکل کینسر ہے، جو خواتین میں پایا جانے والا دوسرا سب سے عام کینسر ہے۔ یہ بیماری عام طور پر ہیومن پیپیلوما وائرس (HPV) کی وجہ سے ہوتی ہے، جو ایک وائرس ہے اور جنسی رابطے کے ذریعے منتقل ہوتا ہے۔ خوش قسمتی سے، سائنس کی ترقی نے اس مہلک مرض سے بچاؤ کے لیے ایک مؤثر ویکسین متعارف کروادی ہے، جسے سرویکل ویکسین یا HPV ویکسین کہا جاتا ہے۔
سرویکل ویکسین ایک ایسی حفاظتی ویکسین ہے جو خاص طور پر ہیومن پیپیلوما وائرس (HPV) کے خلاف قوت مدافعت پیدا کرتی ہے۔ اس ویکسین کے ذریعے نہ صرف سرویکل کینسر بلکہ دیگر HPV سے جڑے بیماریوں جیسے کہ جینیٹل وارٹس اور بعض دیگر اقسام کے کینسر (جیسے وجائنا، آنت، حلق وغیرہ کے کینسر) سے بھی تحفظ حاصل کیا جاسکتا ہے۔
ویکسین عموماً 9 سے 14 سال کی عمر کے درمیان لڑکیوں کو دی جاتی ہے، کیونکہ یہ عمر ویکسین کے مؤثر ہونے کے لیے سب سے مناسب سمجھی جاتی ہے۔ بعض اوقات، خاص حالات میں، یہ ویکسین لڑکوں کو بھی تجویز کی جاتی ہے تاکہ وائرس کے پھیلاؤ کو روکا جاسکے۔
پاکستان میں سرویکل کینسر کی شرح ہر سال بڑھ رہی ہے اور صحت سے متعلقہ ادارے اس پر تشویش کا اظہار کررہے ہیں۔ سرویکل کینسر کی زیادہ تر مریض تب اسپتال پہنچتی ہیں جب مرض آخری اسٹیج میں پہنچ چکا ہوتا ہے، جس کی وجہ سے علاج مشکل اور مہنگا ہوجاتا ہے۔ اس صورتِ حال میں سرویکل ویکسین کا کردار نہایت اہم ہے، کیونکہ یہ بیماری کو پہلے ہی مرحلے پر روکنے کی طاقت رکھتی ہے۔
بدقسمتی سے، عوام میں اس ویکسین کے بارے میں آگاہی بہت کم ہے اور بہت سی غلط فہمیاں بھی پائی جاتی ہیں۔ کچھ لوگ اس ویکسین کو غیر ضروری یا متنازع سمجھتے ہیں، حالانکہ عالمی ادارۂ صحت (WHO) اور متعدد ترقی یافتہ ممالک کے ادارے اسے مکمل طور پر محفوظ اور مؤثر قرار دے چکے ہیں۔
حال ہی میں وفاقی وزیر صحت مصطفیٰ کمال نے ایک مثالی قدم اٹھایا جس نے بہت سے والدین کو سوچنے پر مجبور کردیا۔ انہوں نے سرویکل کینسر سے بچائو کی مہم کے دوران اپنی 13 سالہ بیٹی کو خود HPV ویکسین لگوائی اور اس موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: "یہ ویکسین میری بیٹی کی صحت کا تحفظ ہے۔ میں تمام والدین سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اپنے بچوں کو اس مہلک بیماری سے بچانے کے لیے ویکسین ضرور لگوائیں۔ اگر ہم اپنی اولاد سے سچی محبت رکھتے ہیں تو ہمیں جدید میڈیکل سائنس کی سہولتوں سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔”
وزیرِ صحت کا یہ قدم نہ صرف ایک مثبت پیغام ہے بلکہ معاشرتی سطح پر بیداری پیدا کرنے کی ایک سنجیدہ کوشش بھی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت جلد ہی سرکاری سطح پر HPV ویکسین کو قومی حفاظتی ٹیکہ جات پروگرام (EPI) میں شامل کرنے پر غور کررہی ہے تاکہ اسے ملک بھر میں مفت فراہم کیا جا سکے۔
پاکستان جیسے معاشرتی طور پر حساس ملک میں اکثر جنسی تعلقات سے جڑی بیماریوں کے بارے میں کھل کر بات کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے، اور یہی رویہ صحت کے بڑے مسائل پیدا کرتا ہے۔ بہت سے والدین سرویکل ویکسین کے بارے میں یہ سوچ کر ہچکچاتے ہیں کہ یہ کسی غیر اخلاقی عمل کی ترغیب نہ بن جائے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ ویکسین ایک بیماری سے بچاؤ کی تدبیر ہے، نہ کہ کسی طرز زندگی کی تشہیر۔
اسلام بھی صحت کے تحفظ کی مکمل اجازت دیتا ہے۔ اگر کوئی عمل بیماری سے بچاؤ کے لیے ہو اور وہ محفوظ ہو، تو شرعی طور پر اس کی نہ صرف اجازت ہے بلکہ ترغیب بھی ہے۔
اب وقت آچکا ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کو خطرناک بیماریوں سے بچانے کے لیے اجتماعی سطح پر اقدامات کریں۔ میڈیا کو چاہیے کہ وہ HPV ویکسین کے بارے میں مثبت مہمات چلائے۔ اسی طرح اسکولوں میں والدین کے لیے آگاہی سیشنز منعقد کیے جائیں تاکہ انہیں سائنسی اور طبی حوالوں سے اعتماد دیا جاسکے۔
ڈاکٹروں اور صحت کے کارکنوں کو بھی چاہیے کہ وہ مریضوں کو صرف علاج نہ دیں بلکہ احتیاطی تدابیر پر بھی زور دیں، کیونکہ روک تھام علاج سے بہتر ہے۔سرویکل ویکسین ایک ایسا تحفہ ہے جو لاکھوں لڑکیوں کو ایک مہلک بیماری سے بچا سکتا ہے۔ وزیر صحت مصطفیٰ کمال کا اپنی بیٹی کو ویکسین لگوانا نہ صرف ایک ذاتی فیصلہ تھا بلکہ ایک اجتماعی پیغام بھی کہ "اگر ہم اپنی بیٹیوں سے محبت کرتے ہیں تو ان کی صحت کو ترجیح دیں۔”
وقت آگیا ہے کہ ہم خرافات، غلط فہمیوں اور جھوٹے ڈر کو چھوڑ کر سائنس اور عقل پر مبنی فیصلے کریں۔ کیونکہ ایک صحت مند بیٹی، ایک صحت مند خاندان کی بنیاد ہے… اور ایک صحت مند خاندان، ایک صحت مند قوم کی ضمانت۔