مشرق وسطیٰ کی ترقی پاکستان کے لیے سبق ہے، اظفر احسن
اسلام آباد: نٹ شیل گروپ کے بانی، سابق وزیر مملکت اور بورڈ آف انویسٹمنٹ (بی او آئی) کے چیئرمین محمد اظفر احسن نے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (آئی پی آر آئی) اور وی نیوز کے زیر اہتمام ”مشرق وسطیٰ کی ترقی: پاکستان کے لیے سبق اور مواقع“ کے عنوان سے منعقدہ سیمینار سے کلیدی خطاب کیا۔
سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر کی معیشتوں نے کیا کام کیا ہے؟ اس پر اپنے مشاہدات بیان کرتے ہوئے اظفر احسن نے کہا، پاکستان کی ترقی کے لیے ہر سطح پر تعاون اور پالیسیوں میں تسلسل کی ضرورت ہے۔ ہم داخلی مسائل کو حل کیے بغیر غیرملکی سرمایہ کاروں کو راغب نہیں کرسکتے۔ پالیسیوں میں تسلسل اور متعلقہ افراد کی مشترکہ کوششوں سے 8-10 سال میں پاکستان میں 25 ارب امریکی ڈالرز کی غیرملکی سرمایہ (ایف ڈی آئی) ہوسکتی ہے۔ انہوں نے طویل مدتی پالیسی اور سیاسی ارادے کی کمی پر اپنی تشویش کا اظہار کیا، جس کے باعث ترقی کی رفتار بہت سست ہے۔
وقت کی ضرورت پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے اظفر احسن نے قابلیت اور میرٹ کو ترقی کا بہترین ذریعہ قرار دیا، جیسا کہ ریاض اور قطر کے معاملے میں دنیا نے دیکھا۔ دونوں تیزی سے ترقی کرنے والی معیشتوں کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ حکومتی معاملات میں لوگوں کے لیے میرٹ اور قابلیت واحد معیار ہونا چاہیے۔ کام کرنے والوں کو عہدوں پر برقرار اور کارکردگی نہ دکھانے والوں کو عہدوں سے ہٹانا ضروری ہے۔
اظفر احسن نے نشان دہی کی کہ ملک میں تمام متعلقہ شراکت داروں کے درمیان باہمی تعاون اور ہم آہنگی کا فقدان ہے۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ کاروبار باہمی فائدے کا نام ہے اور پاکستان صرف دوستی اور ذاتی تعلقات کی بنیاد پر کاروباری تعلقات برقرار نہیں رکھ سکتا۔
پالیسیوں میں بڑے پیمانے پر نظرثانی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے اظفر احسن نے کہا کہ صحیح جگہ پر اہل افراد کی تقرری سے حالات بہتر ہوسکتے ہیں۔ موجودہ نظام اور پالیسیوں کے ساتھ پاکستان دنیا کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ ملکی مسائل حل کیے جاسکتے ہیں اور صحیح ڈائریکشن کے ذریعے پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جاسکتا ہے۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ملکی اشرافیہ کو سب سے پہلے پاکستان کا مفاد مدنظر رکھنا ہوگا۔
اظفر احسن نے سعودی سرمایہ کاروں کو سازگار ماحول فراہم کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو ان شعبوں کی نشان دہی کرنی چاہیے جہاں سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کاروں کی حوصلہ شکنی کے بجائے انہیں سہولت فراہم کی جائے۔ قرضوں اور سبسڈیز پر توجہ دینے کے بجائے ہمیں سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے سالانہ چند ارب ڈالرز سرمایہ کاری کو ہدف بنانا چاہیے۔
اظفر احسن نے سعودی ولی عہد اور مملکت سعودی عرب کے وزیراعظم عزت مآب محمد بن سلمان کی کاوشوں اور ان کی غیر معمولی بصیرت کو سراہتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب کا وژن 2030 پاکستان کے لیے بہترین روڈمیپ ہے۔ یہ محمد بن سلمان کی مضبوط منصوبہ بندی تھی جس نے ریاض کو سرمایہ کاری کے مرکز میں تبدیل کردیا، جہاں عالمی برادری مشترکہ منصوبوں اور دیگر مواقع تلاش کررہی ہے۔ اظفر احسن نے کہا کہ سعودی افرادی قوت میں خواتین کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ سعودی عرب کی وزارتیں اور حکومت اب نجی شعبے سے زیادہ موثر ہیں۔ اس کا سہرا ولی عہد محمد بن سلمان کے علاوہ کسی اور کو نہیں جاتا۔
اپنے خطاب کے اختتام پر اظفر احسن نے کہا کہ پاکستان کے لیے بے پناہ مواقع موجود ہیں۔ سعودی سرمایہ کار پاکستان میں 8 شعبوں میں سرمایہ کاری کے لیے تیار ہیں۔ بی او آئی کے چیئرمین کی حیثیت سے میں نے G2G، G2B اور B2B سرمایہ کاری کے لیے پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تعاون بڑھانے کی ذمے داری لی تھی۔
اظفر احسن نے کہا کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ سیاسی تفرقہ پرستی ہے۔ پاکستان کب تک اوسط درجے کی کارکردگی دکھاتا رہے گا؟ موجودہ صورت حال کا رخ موڑنے کے لیے مستحکم اور سرمایہ کاروں کے لیے دوستانہ پالیسی فریم ورک کے ساتھ باہمی تعاون وقت کی ضرورت ہے۔