عالمی یوم مزدور کی داستان

ہر سال مزدوروں کا عالمی دن یکم مئی کو منایا جاتا ہے، کچھ لوگ اس دن کا مقصد اور وجہ جانتے ہیں جبکہ کچھ اس سے بالکل غافل ہیں۔ یہ دن منانے کا مقصد مزدوروں اور محنت کشوں کے مسائل کو سب کے سامنے اجاگر کرنا اور انکے مسائل کیلئے آواز اٹھانا ہے۔ آج پاکستان سمیت پوری دنیا میں یوم مزدور منایا جا رہا ہے۔یہ دن شکاگو کے مزدوروں کی ہلاکتوں کے بعد وجود میں آیا 1884ء میں فیڈریشن آف آرگنائزڈ ٹریڈرز اینڈ لیبر یونینز نے ایک اجلاس منعقد کیا جس میں انہوں نے ایک قرارداد پیش کی جس میں کچھ مطالبات رکھے گئے، جس میں سب سے اہم مزدوروں کے کام کے اوقات کار کو 8 گھنٹے کیے جانا تھا کیونکہ مزدوروں کا کہنا تھا کہ 8 گھنٹے کام کے 8 گھنٹے آرام کے اور 8 گھنٹے ہماری مرضی کے ہونگے۔بہرحال اس مطالبے کو یکم مئی سے لاگو کرنے کی تجویز پیش ہوئی، لیکن تمام تر کوششوں کے باوجود اسے قانونی طور پر منوایا نہ جا سکا۔
اسطرح یکم مئی کو ہی ہڑتال کا اعلان کر دیا گیا اور یہ بھی اعلان کیا گیا کہ جب تک مطالبات نہیں مانے جائیں گے یہ تحریک جاری رہے گی۔ بے چارے سولہ گھنٹے کام کرنے والے مزدوروں میں آٹھ گھنٹے کام کرنے کا نعرہ بہت مقبول ہوا اور اسکی وجہ سے اپریل 1886ء میں ڈھائی لاکھ سے زیادہ مزدور اس ہڑتال میں شامل ہونے کیلئے تیار ہوگئے۔ جیسے کے اس دن کی نسبت کا بتایا گیا تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ تحریک کا آغاز امریکا کے شہر "شکاگو” سے ہوا ہڑتال کے باعث اسلحہ سے بھرپور پولیس شہر پر چھا گئی اور انکو جدید اسلحہ وہاں کے سرمایہ داروں نے دیا۔

یکم مئی کی ہڑتال کامیاب رہی دو مئی کی ہڑتال بھی بہت کامیاب اور پر امن رہی مگر بلاآخر تیسرے دن ایک فیکٹری میں نہتے اور پر امن مزدوروں پر پولیس نے فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں چار مزدور ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔ چوتھے دن چار مئی کو ایک اہم اور بڑے جلسے کا اعلان کیا گیا جلسہ پرامن تھا مگر اسکے اختتام سے پہلے پولیس نے اچانک فائرنگ کر دی۔ایک بار پھر بے گناہ مزدور ہلاک اور زخمی ہوئے۔پولیس نے یہ الزام لگایا کہ مظاہرین کی طرف سے حملہ کیا گیا اور ایک پولیس اہلکار ہلاک اور کئی زخمی ہو گئے۔ حملے کا نام کے کر گھروں میں چھاپے مارے گئے اور مزدوروں کے رہنماؤں کو گرفتار کر کے جعلی مقدمات بنا کر آٹھ کو سزائے موت دی گئی۔ البرٹ پارسن”اگسٹ اسپائز” ایڈولف فشر اور جارج اینجل کو گیارہ نومبر 1887ء کو پھانسی ہوئی جبکہ لوئیس لنگ نے جیل میں خودکشی کر لی اور جو باقی تین تھے انہیں 1893ء میں معافی دے کر رہا کر دیا۔مئی کی اس مزدور تحریک نے طبقاتی طور پر جدوجہد کے شعور میں نے پناہ اضافہ کیا جسکے باعث ایک نوجوان لڑکی سیما گولڈ نے کہا کہ مجھے ایسا محسوس ہوتا یے جیسے میرے سیاسی شعور کی پیدائش یکم مئی 1886ء کے واقعات کے بعد ہوئی ہے۔
البرٹ پارسن کی بیوہ نے کہا کہ غریبوں کو چاہئیے کہ جو انکی غربت کا ذمہ دار سرمایہ دار طبقہ ہے اسکی طرف اپنی نفرت کا رخ موڑ دیں۔مزدوروں پر فائرنگ کے دوران ایک مزدور نے اپنا سفید جھنڈا دوسرے مزدور کے خون میں ڈبو کر سرخ کر کے ہوا میں لہرایا تھا جب سے مزدور تحریک کا جھنڈا ہمیشہ سرخ رہا۔1889ء میں ریمنڈ لیوین کی تجویز پر یکم مئی 1890ء کو یوم مئی کے طور پر منانے کا اعلان ہوا اسکی تقریبات اتنی کامیاب ہوئیں کہ اسکے بعد یہ دن "عالمی یوم مزدور”کے طور پر منائے جانے کے ساتھ اسی نام سے پوری دنیا میں مشہور ہو گیا۔سرخ جھنڈے کی کہانی سن کر آپ سب کے ذہن میں نعرہ "لال لال لہرائے گا” تو ضرور آیا ہو گا مگر آج اس لال لال کی سچی حقیقت بھی سامنے آگئی ہو گی مزدوروں کا عالمی دن کتنی قربانیوں کے بعد وجود میں آیا تاکہ اس دن انکو تحفظ دینے کیلئے کوئی فلاحی کام کیا جائے یا انکو مستحکم کرنے کیلئے کوئی اچھے اقدامات کیے جائیں مگر نہ ایسا کچھ ہوا نہ اس پر کوئی توجہ ہے میری نظر میں ہر ملازمت پیشہ محنتی انسان مزدور ہے مگر حقوق کے معاملے میں وہ خالی کشکول ہے ۔

اسی میں پاکستان بھی شامل ہے مگر پاکستان کی صورتحال دیگر ممالک کے برعکس پہلے ہی معاشی طور پر کمزور ہونے کے باعث ہر خاص و عام کو پریشانی کا سامنا یے مگر روز کی بنیاد پر دھاڑی لگا کر کمانے والا مزدور فاقہ کشی پر مجبور یے سڑکوں پر بیلچا اٹھا کر بھیک مانگنے والا مافیا مزدور طبقے کا حق کھا رہا یے اور اس مسئلے کا حل نکلنے کا نام نہیں یے۔اسی طرح معمولی ملازمت پیشہ افراد بھی مفسلی کا شکار ہیں۔حکومت پاکستان سے درخواست ہے کہ مزدوروں کے مسائل کا بہتر حل نکالنے کی کوشش کریں جس سے اس ملک کی معیشت کا پہیہ چلے اور پاکستان ترقی کرے کیونکہ ہمیں اس مثال پر کسی کا عمل دکھائی نہیں دیتا کہ "مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اسکی اجرت اسکے ہاتھ میں رکھ دو” ۔میں پاکستان کے تمام محنتی اور جفاکش لوگوں کو سلام پیش کرتی ہوں کیونکہ انکی ہمت کے بغیر صرف اچھا وقت نہیں بلکہ زلزلے یا کسی آفت اور دیگر مشکل حالات سے نکلنا بھی ناممکن یے۔یوم مزدور ضرور منایا جائے مگر مزدوروں کو انکے حقوق دے کر اور انکے چہروں پر خوشیاں بکھیر کر۔پاکستان زندہ باد

تبصرے بند ہیں۔