جاوید اختر پہلے اپنے گریبان میں تو جھانک لیتے
بھارت سے تعلق رکھنے والے شاعر اور مصنف جاوید اختر گزشتہ دنوں پاکستان تشریف لائے۔ اس موقع پر اُن کا شان دار استقبال کیا گیا۔ اُن کو خوب عزت و احترام سے نوازا گیا۔ وہ الحمرا آرٹس کونسل لاہور میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے عظیم شاعر فیض احمد فیض کی یاد میں منعقد فیسٹیول میں شرکت کے لیے آئے تھے۔ اُن کو پاکستانیوں نے بھرپور پیار دیا، سبھی لوگ اُن کے لیے دیدہ و دل فرش راہ کیے ہوئے تھے۔
مہمان کم ظرف ہو تو اُسے عزت و احترام کسی طور ہضم نہیں ہوتا اور وہ اپنی زبان سے کچھ نہ کچھ ایسا ضرور کہہ دیتا ہے جو میزبانوں کے لیے کسی بھی طرح قابل برداشت نہیں ہوتا۔ جاوید اختر نے بھی ایسی ہی کم ظرفی دکھائی اور تعصب سے لبریز، متنازع اور پاکستان مخالف بیان دے ڈالا۔ وہ اسے اپنی بڑی کامیابی سمجھ رہے ہیں، لیکن وہ اس تقریر کے بعد پاکستانیوں کے دلوں میں موجود عزت و احترام کو کھوچکے ہیں، کیونکہ محب وطن پاکستانی اپنے ملک اور قوم کے خلاف کسی بھی قسم کی یاوہ گوئی کو برداشت کرنے کے متحمل نہیں ہوسکتے، لیکن پاکستانیوں نے بڑے دل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اُنہیں عزت کے ساتھ اُن کے ملک روانہ کیا۔
اسی قسم کی کم ظرفی کا مظاہرہ ایک فلم کی پروموشن کے لیے آنے والے بھارتی فلموں کے سینئر اداکار فیروز خان نے لاہور میں کی تھی۔ اُنہوں نے پاکستان کے خلاف بدترین زبان استعمال کی تھی۔ پاکستان اور اس کے عوام نے میزبانی کا فریضہ ادا کرتے ہوئے اُس کم ظرف مہمان کو باعزت اُس کے وطن رخصت کیا تھا۔
جاوید اختر کاش آپ اپنے گریبان میں بھی جھانک لیتے۔ جاوید اختر کو میں اُنہی کی زبان میں جواب دینا پسند کروں گا۔ کلبھوشن یادیو یہاں شر اور دہشت گردی پھیلانے ناروے سے تو نہیں آیا تھا۔ ابھی نندن سویڈن سے تو حملہ آور نہیں ہوا تھا۔
پاکستان اور اس کے عوام نے بھارت سے آنے والی تمام شخصیات کو ہمیشہ عزت و اکرام سے نوازا ہے۔ اُن کی میزبانی میں کبھی کوئی کوتاہی نہیں کی ہے۔ اُن کے لیے کھلے دل کا مظاہرہ کیا ہے جب کہ اس کے برعکس بھارت، اُس کے فنکاروں اور عوام کا رویہ اکثر و بیشتر پاکستانی فنکاروں اور دیگر شخصیات کے ساتھ متعصبانہ رہا ہے۔ وہاں کے انتہا پسندوں نے کبھی بھی پاکستانی فنکاروں کا وجود گوارا نہ کیا۔ اُن کے خلاف انتہائی حدوں کو پہنچ گئے۔ اُن کے ساتھ کبھی بھی اچھا سلوک روا نہ رکھا گیا۔ پاکستانی فنکاروں ماہرہ خان، فواد خان، علی ظفر، عمران عباس، حمائمہ ملک، عاطف اسلم، راحت فتح علی خان، شکیل صدیقی، کاشف خان، امان اللہ وغیرہ نے بھارتی فلموں، ڈراموں اور شوز میں اداکاری، گلوکاری اور مزاح کے ذریعے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا اور شاندار کارکردگی پیش کی تو یہ بھی متعصب لوگوں سے ہضم نہ ہوسکی۔
پاکستان کے معروف مزاحیہ اداکار شکیل صدیقی کو بھارت میں بدترین تشدد تک کا سامنا کرنا پڑا۔ بعد میں پاکستانی فنکاروں کے لیے بھارت میں تمام تر دروازے بند کردیے گئے۔
قبل ازیں آل انڈیا سنی ورکرز ایسوسی ایشن نے پاکستانی فنکاروں پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا۔ امریکا اور کینیڈا میں ہونے والے شوز میں راحت فتح علی خان کے پرفارم کرنے پر بھارتی پروموٹرز نے شوز کینسل کرنے کے لیے دبائو ڈالا۔ بھارت کے ہی گلوکار کیلاش کھیر کو پاکستان کے مایہ ناز سنگر عاطف اسلم کا گانا گانے کی پاداش میں حملے کا سامنا کرنا پڑا۔ میکا سنگھ پر پاکستان میں پرفارم کرنے کی پاداش میں پابندی عائد کی گئی۔
چڑیا سے بھی چھوٹا دل رکھنے والے بھارت کے نامور شاعر کو یہ باتیں بھی یاد رکھنے کی ضرورت ہے۔ اپنے دل و دماغ سے تعصب کا غبار نکالیں۔ عزت افزائی کرنے کو کمزوری نہ سمجھیں۔