اسپیکر اسمبلی کا پی ٹی آئی ارکان کے اجتماعی استعفے منظور کرنے سے انکار
اسلام آباد: اسپیکر قومی اسمبلی نے اجتماعی استعفے منظور کرنے سے انکار کردیا، پی ٹی آئی وفد اور اسپیکر قومی اسمبلی کے درمیان ملاقات بے نتیجہ ختم ہوگئی، تحریک انصاف کی جانب سے اجتماعی استعفے منظور کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
پی ٹی آئی وفد نے تحریک انصاف کے ارکان قومی اسمبلی کے استعفوں کی تصدیق کے معاملے پر اسپیکر قومی اسمبلی سے پارلیمنٹ ہاؤس میں ملاقات کی اور اپنا مؤقف بتانے کے ساتھ مطالبات تحریری طور پر پیش کیے۔
پارلیمنٹ ہاؤس میں اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف سے پی ٹی آئی کے وفد میں شامل سابق اسپیکر اسد قیصر، سابق ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری، پی ٹی آئی چیف وہپ عامر ڈوگر، سابق وزیر مملکت ڈاکٹر شبیر قریشی، فہیم خان، عطاء اللہ، امجد خان نیازی، طاہر اقبال، زاہد اکرم درانی و دیگر نے ملاقات کی۔
ملاقات میں پی ٹی آئی ارکان کے قومی اسمبلی سے استعفوں کے معاملے پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے کہا کہ سیاست میں دروازے بند نہیں کیے جاتے۔ سیاست دانوں میں رابطے ہونے چاہئیں۔ استعفوں کی تصدیق کے حوالے سے آئین پاکستان اور قومی اسمبلی کے قواعد و ضوابط کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا۔
اسپیکر راجا پرویز اشرف نے کہا کہ استعفوں کے لیے تمام ارکان کو انفرادی طور پر بلایا جائے گا۔ پہلے بھی پی ٹی آئی ارکان کو استعفوں کی تصدیق کے حوالے سے مدعو کیا گیا تھا۔ پی ٹی آئی کے کراچی سے ایک رکن اسمبلی نے استعفے کی منظوری روکنے کے لیے ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
اجلاس میں پی ٹی آئی وفد نے اسپیکر کو مطالبات تحریری طور پر جمع کرادیے، جس میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ ہم نے اجتماعی استعفے دیے کہ ملک میں عام انتخابات کی راہ ہموار کی جائے۔ ہم نے کسی کی انٹرٹینمنٹ کے لیے استعفے نہیں دیے کہ ایک ایک کر کے بلایا جائے۔
پی ٹی آئی وفد نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پہلے بھی گیارہ استعفے غیر آئینی طریقے سے منظور کیے۔ جاوید ہاشمی کیس میں سپریم کورٹ استعفوں کی منظوری سے متعلق واضح کرچکی ہے۔ استعفے سابق ڈپٹی اسپیکر منظور کرچکے ہیں، اب استعفوں کی تصدیق کا عمل نہیں معاملہ الیکشن کمیشن کو بھیجنے کا ہے۔
سابق اسپیکر اسد قیصر نے کہا کہ قانون اور آئین کے مطابق قومی اسمبلی نشستوں سے استعفے دے چکے ہیں۔ اسپیکر قومی اسمبلی قانون کے مطابق ہمارے استعفے منظور کریں۔ موجودہ اسمبلی کے پاس مینڈیٹ نہیں، جو عوامی مسائل کے حل میں رکاوٹ ہے ۔
دوسری جانب اسپیکر آفس کے ذرئع کے مطابق اسپیکر قومی اسمبلی نے ایک بار پھر پی ٹی آئی کو ایوان میں آنے کی دعوت دیتے ہوئے مشورہ دیا ہے کہ انتخابات میں کچھ ماہ رہ گئے ہیں، پارلیمان میں آکر اپنا کردار ادا کریں۔
ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی اراکین نے ایوان میں واپسی الیکشن کی تاریخ کے اعلان سے مشروط کرتے ہوئے کہا کہ اکثریتی عوامی مینڈیٹ صرف پی ٹی آئی کے پاس ہے۔ موجودہ حکومت کے پاس عوامی مینڈیٹ نہیں ہے۔ ہم استعفے دے چکے ہیں جو قاسم سوری منظور کرچکے ہیں۔
اجلاس کے بعد سابق اسپیکر اسد قیصر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مجھے عمران خان نے لیڈ کرنے کا کہا تھا۔ ہم نے اسپیکر کے سامنے اپنا مؤقف رکھا۔ قاسم سوری نے ایک پروسیس مکمل کیا تھا۔ قاسم سوری سائن کرچکے تھے۔ اسپیکر نے ابھی تک وہ معاملہ روکے رکھا جو غیر قانونی ہے۔
سابق اسپیکر اسد قیصر نے کہا کہ اسپیکر قومی اسمبلی کا کہنا ہے کہ تمام ارکان آئیں گے اور ہاتھ سے لکھ کر استعفے دیں گے۔ ہم نے کہا جن کے استعفے منظور ہوئے کیا وہ آپ کے پاس آئے تھے؟ اس کا اسپیکر کے پاس کوئی جواب نہیں۔شاہ محمود قریشی کے ساتھ اس دن تمام ارکان قومی اسمبلی کھڑے تھے۔ جو فلور پر آکر بات کرتا ہے ان کے استعفے منظور ہوتے ہیں۔ جاوید ہاشمی کیس میں بھی یہی ہوا۔
انہوں نے کہا کہ اب یہ سب کچھ تاخیر کررہے ہیں کیونکہ یہ الیکشن سے بھاگ رہے ہیں۔ ان سے ملک نہیں چل رہا۔
سابق ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ میں نے 127 استعفے منظور کیے۔ نئے اسپیکر نے حلف کے بعد اس فائل کو روک دیا۔ 127 استعفوں کو روکا اور 11 کے منظور کرلیے۔ ہمارا بنیادی مقصد ان استعفوں کو منظور کرانا ہے۔ آج حالات یہ ہیں کہ ہر جگہ دہشت گردی ہورہی ہے۔ یہ امپورٹڈ سرکار ہر سطح پر ناکام ہوچکی ہے۔
اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف کے وفد سے اچھے ماحول میں بات ہوئی ہے۔ان کا موقف تھا کہ 127 افراد نے استعفے دیے،انہیں قبول کیا جائے۔ آئین میں لکھا ہے کہ استعفا ہاتھ سے لکھا ہوا ہو۔ اسپیکر کے پاس جب استعفے آئیں تو اسپیکر رکن کو بلا کر تصدیق کرے گا کہ رکن پر کوئی دباؤ تو نہیں۔
انہوں نے کہا کہ میں نے وفد کو بتایا کہ آپ کے بعض ارکان استعفوں کی منظوری کے خلاف عدالت چلے گئے۔ کچھ ارکان نے چھٹی کی درخواست بھیج دی، بعض ارکان پارلیمنٹ آئے اور حاضری لگا کر چلے گئے۔ میں نے بطور اسپیکر آئین اور قواعد و ضوابط کو دیکھنا ہے۔ میں نے تحریک انصاف کو ایوان میں آنے کا کہا ہے۔ ہمیں پاکستان کو سامنے رکھ فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔
اسپیکر قومی اسمبلی کا کہنا تھا کہ میں نے یقین دہانی کرائی ہے کہ آپ پارلیمان میں آئیں آپ کو بات پوری کرنے کا موقع دوں گا۔ استعفے منظور کرنا بہت مشکل کام ہوتا ہے۔ لاکھوں افراد نے ووٹ دے کر آپ کو منتخب کیا ہے ۔ جن کے استعفے منظور کیے، ان کے ٹوئٹر اور میڈیا پر بیانات دیکھ کر کیے۔میں بطور اسپیکر سب کے لیے سانجھا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک کو مفاہمت کی ضرورت ہے۔مشکلات سے باہر نکلنے کے لیے حالات بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ ان حالات میں ضد اور ذاتی انا نہیں ہونی چاہیے۔ وفد سے کہا کہ میں دوبارہ ارکان کو خط لکھ کر بلا لیتا ہوں۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ سب اجتماعی ا کر استعفے منظور کرائیں۔ اجتماعی استعفوں کی اجازت آئین اور قانون نہیں دیتا۔
ہمیں بطور ارکان ایوان میں آ کر مشکلات کا حل بتانا چاہیے۔ ملک کو مفاہمت کی ضرورت ہے مخاصمت کی نہیں۔تحریک انصاف پارٹی قیادت سے مشاورت کر کے جواب دے گی۔ وفد میں سے کسی نے نہیں کہا کہ میرا استعفا منظور کرلیں۔ اکٹھے آنے پر ایک دوسرے پر دباؤ ہوتا ہے۔ میں نے انفرادی حیثیت میں استعفوں کی تصدیق کرنی ہے۔
راجا پرویز اشرف کا کہنا تھا کہ سیاسی پوائنٹ اسکورنگ حالات خراب کرتی ہے، اس سے مسائل کا حل نہیں نکلتا۔قریشی صاحب نے ایوان میں سب کے استعفوں کی بات کی۔ یہ نہیں کہا کہ میں ایوان پر استعفا دے رہا ہوں۔ 11 استعفے منظور کرنے پر عدالت نے تسلیم کیا ہے۔ ہم تمام کام آئین اور قانون کے مطابق کرتے ہیں۔ استعفوں کی منظوری کے لیے تمام اقدامات کرنے چاہیے ہوتے ہیں۔ سابق ڈپٹی اسپیکر نے استعفے منظور کر کے غیر آئینی کام کیا۔