امن کا نوبل انعام ایلس بیایاٹسوکی کیساتھ روسی، یوکرینی تنظیموں نے جیت لیا

اسٹاک ہوم: امسال امن کا نوبل انعام بیلاروس کے انسانی حقوق کے لیے نہایت سرگرم اور اس پاداش میں اسیری کاٹنے والے ایلس بیایاٹسکی کے ساتھ روس اور یوکرین کی انسانی حقوق کی تنظیموں ’’میموریل‘‘ اور

’’سینٹر فار سول لبرٹیز‘‘ کو عطا کیا گیا ہے۔
بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق امن کا نوبل انعام 2022 مشترکہ طور پر بیلاروس، یوکرین اور روس کے نام رہا۔ اس بار نوبل انعام برائے امن روس اور یوکرین کی انسانی حقوق کی دو تنظیموں اور بیلاروس کے ایک سرگرم کارکن کو دیا گیا جو اس وقت اسیر ہیں۔
انسانی حقوق، امن اور جمہوریت کے لیے شخصی جدوجہد پر جس سماجی کارکن اور تنظیمی سطح پر خدمات کے اعتراف میں جن دو این جی اوز کو مشترکہ طور پر نوبل انعام 2022 سے نوازا گیا، ان کی تفصیلات یہ ہیں۔
انسانی حقوق کی دو تنظیموں کے ساتھ جس شخصیت کو امن کا نوبل انعام دیا گیا ہے ان کا تعلق بیلاروس سے ہے۔ ملک میں انسانی حقوق، امن اور جمہوریت کے لیے سرگرم کارکن ایلس بیایاٹسکی نے صرف 24 سال کی عمر میں اپنی جدوجہد کا آغاز تن تنہا 1980 میں کیا اور جب 1996 میں ملک میں ایک آمر نے حکومت پر قبضہ کیا اور سیاسی مخالفین کو طاقت سے کچلا تو ایلس نے ’’بہار‘‘ کے نام سے ایک سماجی تنظیم کی بنیاد رکھی۔
یہ تنظیم جمہوریت کی بحالی کے لیے سخت گیر آمر کے سامنے ڈٹ گئی۔ سیاسی کارکنان اور قیدیوں کو قانونی اور ان کے اہل خانہ کو سماجی خدمات مفت فراہم کرتی رہی جس کی پاداش میں بیلاروس کے آمروں نے ایلس بیایاٹسکی کو 2011 سے 2014 تک غیر قانونی حراست میں رکھا۔ رہائی کے بعد ایلس نے اپنی جدوجہد کو مزید تیز کردیا اور 2020 میں ملک میں بڑے بڑے مظاہرے کیے، جس کی پاداش میں انہیں ٹیکس چوری کے جھوٹے مقدمے میں دوبارہ گرفتار کرلیا گیا۔
60 سالہ ایلس بیایاٹسکی تاحال زیر حراست ہیں اور اب تک ان پر عائد جھوٹے مقدمے کی قانونی کارروائی بھی شروع نہیں کی گئی۔ بیلاروس کی حکومت دباؤ ڈال کر ایلس کو امن، جمہوریت اور انسانی حقوق کی جدوجہد سے روکنا چاہتی ہے لیکن وہ ڈٹے ہوئے ہیں جس پر انہیں نوبل انعام برائے امن سے نوازا گیا۔
روس میں سرگرم سول سوسائٹی ’’میموریل‘‘ کی بنیاد سقوط سوویت یونین کے موقع پر جنوری 1989 میں رکھی گئی تھی تاہم یوکرین جنگ کے آغاز کے بعد اپریل 2022 کو اس این جی اور کو حکومت نے جبراً بند کردیا تھا۔
این جی او ’’میموریل‘‘ نے روس میں سیاسی کارکنان کی جبری گمشدگیوں، سیاسی قیدیوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک، آزادیٔ اظہار رائے پر قدغن اور غیر جمہوری قوانین کے خلاف آواز اُٹھائی جس کی پاداش میں 2009 میں اس سول سوسائٹی کے دو مقامی عہدیداروں کو قتل کیا گیا اور حکومت کی جانب سے شدید دباؤ، دھمکیوں اور گرفتاریوں کا سامنا رہا جس میں یوکرین جنگ کے بعد مزید شدت آئی۔


نوبل انعام برائے امن یوکرین میں مصروف عمل انسانی حقوق کی تنظیم ’’سینٹر فار سول لبرٹیز‘‘ کو بھی مشترکہ طور پر دیا گیا جس کی بنیاد کیف میں 2007 کو رکھی گئی تھی۔ اس تنظیم نے یوکرین میں انسانی حقوق اور جمہوریت کے لیے بے پناہ کام کیا اور آگاہی پروگرام کے ذریعے عوامی رائے میں تبدیلی کرکے حکمرانوں کو ملک میں حقیقی جمہوریت کے قیام کے لیے مجبور کردیا۔
علاوہ ازیں ’’سینٹر فار سول لبرٹیز‘‘ کی جدوجہد کی بدولت ہی یوکرین میں قانون کی حکمرانی ممکن ہوئی اور یہ ریاست انٹرنیشنل کریمنل کورٹ کی ممبر بنی جو انسانی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے ایک اہم اقدام ہے۔ اس تنظیم نے روس کے یوکرین پر رواں برس فروری میں حملے کے بعد نہ صرف سے شہریوں کے تحفظ کے لیے اہم کام کیے بلکہ جنگی جرائم کا ریکارڈ بھی مرتب کیا۔
نوبل امن انعام کی مالیت 10 ملین سویڈش کراؤن، یعنی 9 لاکھ ڈالر ہے جو 10 دسمبر کو اوسلو میں سویڈن کے صنعت کار الفریڈ نوبل کی برسی کے موقع پر پیش کیا جائے گا۔
سویڈن کے صنعت کار الفریڈ نوبل نے 1895 میں اپنی وصیت میں اس ایوارڈز کی بنیاد رکھی تھی اس لیے ہر سال ان کی برسی پر یہ انعام دیا جاتا ہے، تاہم ناموں کا اعلان پہلے ہی کردیا جاتا ہے۔
واضح رہے کہ امن کا نوبل انعام کسی فرد یا تنظیم کو انسانی حقوق، ملکوں کے درمیان رفاقت بڑھانے، فوجی حکومت کے خاتمے، امن کے قیام اور جمہوریت کے فروغ کے لیے سب سے زیادہ یا بہترین کام کرنے پر دیا جاتا ہے۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔