کراچی کا قدیم یہودی سینیگاگ

گم ہوتا کراچی
تحقیق و تحریر: زاہد حسین


کراچی ساحلی شہر ہونے کے ناتے مختلف اللسان، مختلف الخیال، مختلف المذاہب اور مختلف الثقافت افراد کا ہمیشہ سے میزبان رہا ہے۔ قدیم کراچی میں عام طور پر بولی جانے والی زبانوں میں مقامی سندھی اور بلوچی کے علاوہ انگریزی، گجراتی اور اردو بولی جاتی تھی، جبکہ یہاں بسنے والوں میں ہندو، مسلمان، عیسائی، پارسی اور یہودی شامل تھے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں موجود قدیم عمارتوں کا طرزِ تعمیر قدیم برطانوی ہے۔ کراچی کے علاقوں رنچھوڑ لائن، رام سوامی اور اس وقت کے رام باغ یعنی آج کے آرام باغ کے آس پاس بڑی تعداد میں یہودی رہتے تھے۔ یہاں رہنے والے ہندو، مسلمان، عیسائی اور ییہودی، تمام ہی مذاہب کے لوگوں میں بھائی چارہ قائم تھا، وہ ایک دوسرے کے غم اور خوشی میں یکساں شریک ہوا کرتے تھے۔ یہاں بڑی تعداد میں مندر بھی موجود تھے، جن میں سے قیام پاکستان کے بعد اب چند ہی باقی رہ گئے ہیں۔ یہاں عیسائیوں کے قدیم گرجا گھر اب بھی بہت اچھی حالت میں موجود ہیں۔ یہودیوں کی عبادت گاہیں (سینیگاگ) یہاں سے یہودیوں کی بیرونِ ملک منتقلی کے ساتھ کم ہوتی گئیں اور بالآخر اب اس شہر میں کوئی سینیگاگ باقی نہیں رہا۔

کراچی میں آخری سینیگاگ 1988 تک قائم رہا۔ اس سینیگاگ سے متعلق دستیاب اخباری تراشوں اور بعض دستاویزات کے مطابق اس عبادت گاہ کا نام Magain Shalome Synagogue تھا۔ یہ سینیگاگ رنچھوڑ لائن کے علاقے میں اس وقت کے لارنس روڈ، جسے عبدالرب نشتر روڈ کہا جاتا ہے اور بارنیس اسٹریٹ کے سنگم پرتعمیر کی گئی تھی۔ پتھر کی یہ خوبصورت عمارت کراچی کی خوبصورت عمارتوں میں سے ایک تھی۔ اس کی تعمیر میں جودھپور کا لال اور گذری کا پیلا پتھر استعمال کیا گیا تھا۔ اس عمارت کے دروازے اور کھڑکیاں لکڑی کے تھے، جو دیکھنے میں بڑے بھلے معلوم ہوتے تھے۔ یہ انیسویں صدی کی آخری دہائی کی بات ہے۔ اُس وقت کراچی برطانوی حکومت کے تحت تھا۔۔ اس سینیگاگ کے آرکیٹیکٹ یہودی سولومن ڈیوڈ اومر ڈیکار تھے، جو اس وقت کراچی میونسپلٹی میں سرویئر تھے اور کراچی میں یہودی کمیونٹی کی تنظیم کے صدر بھی تھے۔
سینیگاگ کی تعمیر 1893 میں مکمل ہوئی۔ اس کی تعمیر کی تکمیل کے دس سال بعد 27 اپریل 1903 کو سولومن ڈیوڈ اومر ڈیکار چل بسے۔ ان کی قبر میوہ شاہ قبرستان کے ایک حصے میں قائم یہودی قبرستان میں ہے۔ سولومن ڈیوڈ اومر ڈیکار کی موت کے بعد اپریل 1911 میں اس عمارت کو توسیع دیتے ہوئے ایک اور ہال تعمیر کیا گیا، جس کا نام شیگل بائی ہال رکھا گیا۔ شیگل بائی اس سینیگاگ کے آرکیٹیکٹ سولومن ڈیوڈ اومر ڈیکار کی بیوی تھیں۔ یہ ہال شیگل بائی کے پوتے ابراہام روبن کامولیکر نے اپنی دادی کی یاد میں تعمیر کرایا تھا۔ اس ہال کی تعمیر کے پانچ سال بعد یعنی 1916ء میں اس عمارت میں ایک عبرانی اسکول قائم کیا گیا اور 1918ء میں اس عمارت میں ایک بڑا ہال تعمیر کیا گیا، جس کا نام ناتھن ابراہام ہال رکھا گیا۔ سینیگاگ کی چاردیواری میں "کراچی بنی اسرائیل ریلیف فنڈ” کا دفتر بھی قائم تھا۔ ساتھ ہی ایک چھوٹا پارک بھی ہوا کرتا تھا۔

ابراھام روبن 1936 میں کراچی میونسپلٹی کا کونسلر منتخب ہوا تھا۔ اس نے 1928 میں حاجی مرید بکک گوٹھ لاکو کیٹ، جسے عرفِ عام میں لالو کھیت کہا جاتا ہے، یعنی آج کے لیاقت آباد میں ایک پرائمری اسکول اپنے خرچے پر بنا کر ضلع لوکل بورڈ کے حوالے کیا۔ یہ اسکول آج بھی اسی نام سے پرانی عمارت میں قائم ہے۔ لیاری میں ایک اہم چوک بھی ابراھام روبن کے نام پر تھا۔ یہ بات تقسیم سے قبل کی ہے۔ آج ابراھام روبن چوک کو لوگ چیل چوک کے نام سے جانتے ہیں۔
اس سے قبل 1919 میں سینیگاگ کے احاطے میں ایک اور عمارت بنائی گئی جس کا نام ابراہام سنڈیکیٹ رکھا گیا تھا۔ اس عمارت میں 1903 میں ایک سماجی تنظیم کی بنیاد رکھی گئی۔ تنظیم کا نام "ینگ مین جیوئش ایسوسی ایشن ” رکھا گیا تھا۔
ناتھن ابراہام ہال کی تعمیر کے بعد یہاں یہودی کمیونٹی کی سماجی اور مذہبی سرگرمیاں بڑھنے لگیں اور یہ ہال کراچی میں بسنے والی یہودی کمیونٹی کا بڑا سماجی مرکز بن گیا، جہاں وہ اپنی بیش تر تقاریب منعقد کیا کرتے اور دیگر مذہبی سرگرمیاں بھی اسی ہال میں انجام پاتی تھیں۔ ان دنوں اس سینیگاگ اور سماجی ہال سے متعلق تمام امور کی ذمے داری یہودی رہنما ابراہام ریوین کے سر تھی۔ ابراہام ریوبن 1936 میں کراچی سٹی کارپوریشن میں کونسلر منتخب ہوئے تھے۔ وقت گزرتا گیا اور یہاں یہودیوں کی تمام سرگرمیاں جاری رہیں۔

14 اگست 1947 بکو قیام پاکستان کے بعد بڑے پیمانے پر نقل مکانی نے اس شہر میں آبادی کے تناسب کو بھی متاثر کیا۔ کراچی میں آباد ہندو اکثریت شہر بلکہ ملک چھوڑ کر بھارت جاکر آباد ہوگئی جب کہ بھارت سے ہجرت کرنے والے بیش تر مسلمان پاکستان پہنچے۔ ان مسلمانوں کی اکثریت نے کراچی کو اپنا مسکن بنایا اور یوں کراچی مسلم اکثریتی شہر کے طور پر ابھر کا سامنے آیا۔ اس کے بعد Magain Shalome Synagogue کے باہر لگا سائن بورڈ تبدیل کرکے "پاکستان بنی اسرائیل کمیونٹی” کا نیا بورڈ آویزاں کردیا گیا۔
ابھی قیام پاکستان کو ایک سال بھی مکمل نہیں ہوا تھا کہ اس عرصے میں یہودیوں نے اپنی ریاست اسرائیل کے قیام کا اعلان کردیا۔ یوں پہلی مرتبہ کراچی میں یہودیوں پر حملے شروع ہوئے اور یہ حملے پورے ملک میں پھیل گئے۔ ان حملوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہودیوں کی اکثریت یہاں سے اسرائیل منتقل ہوگئی اور بعض یہودیوں نے پڑوسی ملک بھارت کا رخ کیا۔
1948، 1956، 1967 اور پھر 1973 میں عرب-اسرائیل تنازع اور عربوں اور اسرائیل کے درمیان ہونے والے جنگوں سے حالات تبدیل ہوئے اور عرب ممالک کے ساتھ پاکستان میں بھی یہودیوں پر حملوں میں اضافہ ہوگیا۔ 1971 کی پاک بھارت جنگ کے آغاز تک پاکستان میں آباد یہودیوں کی بڑی تعداد اسرائیل یا بھارت منتقل ہو چکی تھی۔ ان یہودیوں کی اسرائیل اور بھارت نقل مکانی کے بعد ان کی عبادت گاہ صرف یادگار عمارت بن کر رہ گئیں۔
بعض رپورٹس کے مطابق 1959 میں کراچی میں 400 یہودی رہتے تھے۔ 1968 میں یہاں آباد یہودیوں کی تعداد کم ہوکر 250 رہ گئی۔ 1941 کی مردم شماری کے ریکارڈ کے مطابق کراچی میں 1051 یہودی رہا کرتے تھے۔ ان میں سے 513 مرد اور 538 خواتین تھیں۔
وقت کے ساتھ ساتھ میگین شولوم سینیگاگ کی عمارت اپنی خوبصورتی کھوتی رہی۔ کچھ مزید عرصہ گزرا تو اپنا وجود بھی کھونے لگی۔ عدم دیکھ بھال کے باعث یہ عمارت باقی رہ جانے کے باوجود کھنڈر معلوم ہونے لگی۔ 1988 میں حالات یکسر تبدیل ہوگئے اور اس تاریخی یہودی عبادت گاہ کو آگ لگادی گئی۔ سینیگاگ کو آگ لگانے کے کچھ عرصے بعد اس جگہ ایک نئی عمارت تعمیر کی گئی۔ یہ عمارت مدیحہ اسکوائر کہلاتی ہے۔ اس عمارت میں شاپنگ پلازہ قائم ہے۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔