بائیکاٹ کرنے والے شائستگی کا مظاہرہ کریں، چیف جسٹس
اسلام آباد: ڈپٹی اسپیکر رولنگ کیس، پاکستان کے چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے ہیں کہ عدالتی بائیکاٹ کرنے والے شائستگی کا مظاہرہ کریں، عدالتی کارروائی سنیں۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی رولنگ کیس کی سماعت کی۔
ڈپٹی اسپیکر کے وکیل عرفان قادر عدالت میں پیش ہوئے اور حکومتی بائیکاٹ سے متعلق بتایا کہ مجھے کہا گیا ہے عدالتی کارروائی کا مزید حصہ نہیں بنیں گے، ہم فل کورٹ درخواست مسترد کرنے کے حکم کیخلاف نظرثانی دائر کریں گے۔
یہ کہہ کر عرفان قادر سپریم کورٹ سے واپس چلے گئے۔ وکیل فاروق ایچ نائیک پیش ہوئے اور کہا کہ پی پی پی بھی عدالت میں پیش نہیں ہوگی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ فل کورٹ کی تشکیل کیس لٹکانے سے زیادہ کچھ نہیں تھا، ستمبر کے دوسرے ہفتے سے پہلے ججز دستیاب نہیں، گورننس اور بحران کے حل کے لیے جلدی کیس نمٹانا چاہتے ہیں، آرٹیکل 63 اے کے مقدمے میں پارلیمانی پارٹی کی ہدایات کا کوئی ایشو نہیں تھا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ عدالت کے سامنے 8 جج کے فیصلہ کا حوالہ دیا گیا، آرٹیکل 63 اے سے متعلق 8 ججز کا فیصلہ اکثریتی نہیں ہے، جس کیس میں 8 ججز نے فیصلہ دیا وہ 17 رکنی بینچ تھا، آرٹیکل 63 سے فیصلہ 9 رکنی ہوتا تو اکثریتی کہلاتا، فل کورٹ بینچ کی اکثریت نے پارٹی سربراہ کے ہدایت دینے سے اتفاق نہیں کیا تھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ موجودہ کیس میں فل کورٹ بنانے کی ضرورت نہیں ہے، کیا 17 میں سے آٹھ ججز کی رائے کی سپریم کورٹ پابند ہوسکتی ہے؟۔
چیف جسٹس نے پرویز الہی کے وکیل علی ظفر کو ہدایت کی کہ قانونی سوالات پر عدالت کی معاونت کریں، دوسرا راستہ ہے کہ ہم بینچ سے الگ ہو جائیں، عدالتی بائیکاٹ کرنے والے گریس (شائستگی) کا مظاہرہ کریں، بائیکاٹ کردیا ہے تو عدالتی کارروائی کو سنیں۔
علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 21 ویں ترمیم کے خلاف درخواستیں 13/4 کے تناسب سے خارج ہوئی تھیں، اس کیس میں جسٹس جواد خواجہ نے آرٹیکل 63 اے کو خلاف آئین قرار دیا تھا، ان کی رائے تھی کہ آرٹیکل 63 اے ارکان کو آزادی سے ووٹ دینے سے روکتا ہے، ان کی رائے سے اتفاق نہیں کرتا۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا پارلیمنٹری پارٹی، پارٹی سربراہ سے الگ ہے؟ ۔ وکیل نے جواب دیا کہ پارلیمانی جماعت اور پارٹی لیڈر دو الگ الگ چیزیں ہیں۔
جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ پارلیمانی لیڈر والا لفظ کہاں استعمال ہوا ہے؟ وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ 2002 میں سیاسی جماعتوں کے قانون میں پارلیمانی پارٹی کا ذکر ہوا۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ پارلیمنٹری پارٹی کی جگہ پارلیمانی لیڈر کا لفظ محض غلطی تھی۔
علاوہ ازیں ڈپٹی اسپیکر رولنگ کیس میں سپریم کورٹ نے گزشتہ روز کی سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا۔ تحریری حکم نامہ تین صفحات پر مشتمل ہے جس میں فیصلہ سنایا گیا کہ دوران سماعت فریقین کے وکلا نے فل کورٹ کے حوالے سے گزارشات کیں، ہم نے وکلا کو فل کورٹ کے حوالے سے گھنٹوں سنا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ کیس میں صرف ایک ہی قانونی نکتہ شامل ہے، کہ آیا 63 ون بی کے تحت پارلیمانی سربراہ ہدایات جاری کرسکتا ہے یا پارٹی کا سربراہ، شجاعت حسین، پیپلز پارٹی اور ڈپٹی اسپیکر کے وکلا نے پارٹی ہیڈ کے ہدایات جاری کرنے کے حق میں دلائل دیے۔
تحریری حکم نامے میں کہا گیا کہ کیس تفصیلی سننے کے بعد فل کورٹ بھجوانے کی حد تک استدعا مسترد کرتے ہیں، دوران سماعت فریقین کے وکلا نے گزارشات کے لیے مزید مہلت کی استدعا کی جسے منظور کرلیا گیا۔