کیا کسی اجرامِ فلکی کا قریب سے گزرنا نظامِ شمسی کو تباہ کردے گا؟
ٹورنٹو: سائنس دانوں کا خبردار کرتے ہوئے کہنا ہے کہ اگر کوئی قریب سے گزرتا ستارہ نیپچون کے مدار کو 0.1 فیصد تک بھی ہلادے تو اس کے نتیجے میں نظامِ شمسی کے دیگر سیاروں کے آپس میں ٹکرانے کا اندیشہ ہے۔
ماہنامہ نوٹس آف دی رائل آسٹرونومیکل سوسائٹی میں شائع شدہ تحقیق میں سائنس دانوں نے بتایا کہ اگر کوئی خلائی شے کسی سیارے کے قریب سے گزرتی ہے، جو کائنات میں ہونے والی ایک عام بات ہے- تو یہ دیگر سیاروں کے آپس میں ٹکرانے کے لیے کافی ہے۔
اگر عطارد اور مشتری کے پیری ہیلین (ایسا نقطہ جہاں سیارے سورج سے سب سے زیادہ قریب پہنچ جاتے ہیں) ایک جگہ آجائیں تو دو وقوعات کے امکانات ہوسکتے ہیں۔
ایک تو یہ کہ عطارد اپنے مدار سے باہر ہو جائے اور نظامِ شمسی سے باہر نکل جائے یا سیارہ زہرہ، زمین یا سورج سے اس کا تصادم ہوجائے۔
یہ تبدیلیاں لاکھوں سال کے عرصے پر محیط ہوں گی، لیکن محققین نے اس صورت حال کی قریباً 3 ہزار بار نقول بنائیں۔
قریباً 2 ہزار نقول میں 26 کا اختتام سیاروں کے آپس میں تصادم سے ہوا یا عطارد، یورینس یا نیپچون مکمل طور پر نظامِ شمسی سے باہر نکل گئے۔
یونیورسٹی آف ٹورنٹو کے شعبے فزیکل اینڈ اِنوائرنمنٹ سائنسز کے گریجویٹ طالب علم گیریٹ براؤن نے بتایا کہ سیاروی نظام کے ارتقاء میں ستاروں کا گزر ابھی بھی تحقیق کا ایک فعال شعبہ ہے۔ سیاروی نظام جو ستاروں کے جتھے میں بنتے ہیں، اس بات پر اتفاق ہے کہ ستاروں کا گزر ایک اہم کردار ادا کرتا ہے جب کہ سیاروی نظام ان ستاروں کے جتھے میں باقی رہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایسا سیاروی ارتقاء کے شروع کے 10 کروڑ سال میں ہوتا ہے۔ ستاروں کے جتھوں کے زائل ہونے کے بعد ستاروں کے قریب سے گزرنے کے واقعات میں ڈرامائی کمی آتی ہے جس سے ان کا سیاروی نظاموں کی ارتقاء میں کردار کم ہوجاتا ہے۔