عوام کی بدحالی اور حکومتی بیانیہ
صحافیوں اور سیاست دانوں سے آج کل صرف یہ سوال پوچھے جارہے ہیں کہ ملک میں کیا چل رہا ہے، کیا ہونے جارہا ہے۔ اگر سوال کا جواب اُس کے پوچھنے والے کی مرضی کا نہ ہو تو پھر ایک لمبا چوڑا تجزیہ سننے کو ملے گا۔ اس وقت وہ صحافی، جن کا وی لاگ لوگ دیکھنا اور سننا چاہتے ہیں وہ بھی زورشور کے ساتھ خبروں کا مکسچر بناکر، تھوڑا رنگ ملاکر پیش کررہے ہیں۔ صحافت کا پیشہ بھی تقسیم ہوچکا۔ عبادت سمجھے جانے والے پیشے بھی تقسیم ہوچکے۔
عمران حکومت کے بعد اور دنیا میں کورونا کے بعد کیا چل رہا ہے، کسی کو اس کی سمجھ نہیں آرہی۔ دنیا کے کمزور ممالک میں معاشی بے یقینی میں اضافہ ہوا ہے، لیکن وہ ممالک کمزور ضرور ہیں مگر وہاں عدل و انصاف میسر ہے، وہاں سیاست اصولوں پر ہوتی ہے، وہاں کے بھکاری بھی اصول پسند ہوتے ہیں۔ قانون کی بالادستی، جھوٹ پر پکڑ ہے۔
ملک میں 30 سال کے دوران تعلیمی نظام کو ناکام کیا گیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج 50 فیصد لوگ تعلیم سے محروم ہیں۔ مفتی آفتاب نے 2 ایکڑ زمین ایوب خان کے دور میں حکومت پاکستان کے حوالے کردی تاکہ لوگ تعلیم حاصل کریں اور ملک کا نام روشن کریں۔ آج بھی سرکاری اسکول اور مسجد اس کی بیٹی فریال کے نام پر موجود ہے۔ آج بھی ایسے کئی ہیرے موجود ہیں جن کی قبروں پر کوئی حاضری تک نہیں دیتا۔ ہمارے ہاں سیاست داں آسانی کے ساتھ قوم کو اپنے جادو سے مست کرلیتے ہیں۔
پچھلے 40 سال سے سیاست دان اپنے جلسوں میں ایسے سوہنے وعدے، احتساب کی کہانیاں، انصاف کی وقت پر فراہمی، روزگار کی وقت پر فراہمی جیسے نعروں سے قوم کو مرغوب کرتے آرہے ہیں، لیکن 2018 میں عمران خان نے قوم کو ایسے ایسے خوب دکھائے جو حقیقی نظر آنے لگے۔ خان کے ان وعدوں میں بہت دم نظر آتا تھا، ایسا محسوس ہوتا تھا کہ صبح اٹھیں گے تو بجلی، پانی، گیس اور روزگار دہلیز پر ہو گا۔ کوئی سرکاری افسر رشوت نہیں مانگے گا۔ سرکاری ملازمین وقت پر حاضر ہوں گے۔ اپنی ڈیوٹی پوری کریں گے۔ شفاف انصاف ہوگا۔ قوم کی ذہنی کیفیت ایسی ہے جو صرف نعروں کو سن کر فیصلہ کرلیتی ہے کہ اس دفعہ فلاں پارٹی ہمارے غموں کا مداوا کرے گی۔ کبھی بھی معاشی پالیسی پر ووٹ نہیں دے گی۔ پارٹیوں کے سربراہان نے بھی جھوٹ میں ڈپلومہ کیا ہوا ہے، عوام کی رگ کا ان کو بخوبی علم ہے۔ لوگوں نے کبھی بھی سیاسی جماعت کی معاشی، معاشرتی پالیسی کی بنیاد پر ووٹ نہیں دیا۔ نعروں کی بنیاد پر ووٹ دینے کا نتیجہ معاشی تنگ دستی کی صورت سامنے آتا رہا ہے۔ دوسرا جب بھی نئی حکومت آتی ہے وہ تمام ناکامیوں کو پچھلی حکومت کے کھاتے میں ڈال کر وقت گزاری والے کاموں کو ترجیح دیتی ہے۔
جمہوری حکومت میں اپوزیشن کی رضامندی قومی فیصلوں میں ہر حال میں شامل ہوتی ہے۔ کوئی بھی کمیٹی اس وقت تک نہیں بن سکتی جب تک اپوزیشن کے ارکان اس میں شامل نہ ہوں۔ جمہوریت کا حسن ہے کہ اپوزیشن کی حیثیت کو تسلیم کرنا قانونی عمل ہے۔ قومی اسمبلی میں کیے جانے والے فیصلوں کی حیثیت اپوزیشن کے بغیر کچھ بھی نہیں۔ پنجاب میں وزیراعلیٰ کے الیکشن پر سپریم کورٹ کا فیصلہ اس بات کا ثبوت ہے۔ لہٰذااب حکومت کو اپنی تقریروں میں الزام تراشی بند کرنی چاہیے، اس لیے کہ اس حکومت کا اپوزیشن میں بھرپور کردار رہا تھا۔ پچھلی حکومت کو چھوڑ کر صرف اپنی اقتصادی پالیسیوں پر قوم کو آگاہ کریں اور اس مہنگائی کے جن کو قابو کریں۔
عمران خان، شہباز شریف، آصف زرداری، مولانا فضل الرحمٰن یقین رکھیں لوگ صرف اور صرف بجلی، گیس، پٹرول، ڈیزل، گھی، تیل کی قیمتوں میں دلچسپی رکھتے ہیں جو دو مہینوں میں چوگنی ہوگئی ہیں۔ وزیر داخلہ کا اپنے ٹویٹ میں کہنا تھا کہ پٹرول کی قیمتیں بڑھانے کا فیصلہ انتہائی مشکل تھا، انتخابات میں جانے کا فیصلہ کرتے تو ملک کے ڈیفالٹ کا خطرہ تھا۔ گذشتہ حکومت کے IMF معاہدہ پر عمل درآمد نہ کرنے سے معاشی حالات بدتر ہوئے، عام آدمی کی مشکلات سے مکمل آگاہ ہیں، عوام ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے والوں کا ساتھ دیں۔ جناب کی پارٹی پچھلے 40 سال سے سیاست کررہی ہے، قوم نے تین بار وزیراعظم منتخب کیا اور اب چوتھی باری ہے۔ شہباز شریف کی پنجاب میں خدمات مثالی تھی، پنجاب کی حکمرانی 10 سال رہی۔ وزیراعظم بننے کے بعد ہمت والے فیصلوں کی ضرورت تھی جس میں شہباز کنفیوژن کا شکار رہے۔ اب قوم کو بیانیہ بشریٰ بی بی آڈیو لیکس، فرح گوگی معاملات میں کوئی دلچسپی نہیں۔ جنہوں نے لوٹ مار کی ہے، ان پر مقدمات درج کریں۔ جن پر پہلے سے قائم مقدمات ہیں ان کا فیصلہ کیا جائے۔ روزانہ ٹی وی شو پر ایک سلسلہ چل پڑتا ہے۔ اپنی کارکردگی کے جھنڈے بلند کرتے ہیں، لیکن جب قوم کے حالات دیکھتے ہیں تو پہلے سے زیادہ بدتر نظر آتے ہیں۔ اداروں کی حالت پہلے سے زیادہ خراب نظر آتی ہے۔ منافع بخش کوئی ادارہ نظر نہیں آتا۔ صوبوں کے حالات وفاق کے سامنے ہیں۔ لا اینڈ آرڈر کی حالت بہت خراب ہے۔ اس وقت جو 60 فیصد غریب عوام کو مہنگائی سے نجات دلائے گا۔ عوام اسے پوجیں گے۔ سازش، مداخلت والے بیانیے سے گھروں کا نظام نہیں چلتا۔ اس لیے قومی مفاد پر بات کریں اور نعروں اور جلسوں سے کچھ نہیں ہوگا۔ یہاں سیاسی رابطوں سے کام چلتے ہیں۔