امریکا، طالبان مذاکرات اختتام پذیر، بات چیت جاری رکھنے پر اتفاق
دوحہ: قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکا اور طالبان کے وفد کے درمیان امن معاہدے کی پیش رفت اور افغانستان کے منجمد اثاثوں کی بحالی سے متعلق مذاکرات اختتام پذیر ہوگئے، جس میں فریقین نے بات چیت جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔
بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکا اور طالبان کے درمیان 3 ماہ کے تعطل کے بعد دوبارہ مذاکرات کا آغاز قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہوا۔ امریکا کی جانب سے افغان امور کے نمائندہ خصوصی تھامس ویسٹ جب کہ طالبان کی نمائندگی وزیر خارجہ امیر اللہ متقی نے کی۔
طالبان حکومت کے وزارت خارجہ کے ترجمان عبدالقہار بلخی نے مذاکرات کے حوالے سے ٹوئٹر پر لکھا کہ امریکی ٹریژری کے نمائندے بھی اجلاس میں شریک تھے، جن کے ساتھ منجمد افغان اثاثوں کی بحالی سے متعلق تبادلہ خیال کیا گیا۔
عبدالقہار بلخی نے مزید کہا کہ طالبان وفد میں شامل وزارت خزانہ اور افغان سینٹرل بینک کے حکام نے افغان اثاثوں کو بحال کرنے کے لائحہ عمل کے حوالے سے امریکی محکمہ خزانہ کے حکام کو اپنی تجاویز دیں۔
افغانستان کی حکومت کے ترجمان وزارت خارجہ نے یہ بھی کہا کہ وزیر خارجہ امیر اللہ متقی نے بات چیت کے دوران مذکرات کی کامیابی کے لیے دباؤ کی حکمت عملی کے بجائے تعاون پر مبنی مثبت اقدامات پر زور دیا۔
ترجمان عبدالقہار بلخی نے دعویٰ کیا کہ امریکی وفد نے یقین دہانی کرائی کہ امریکا ایک مستحکم افغانستان کی خواہشں رکھتا ہے اور افغانستان میں کسی مسلح اپوزیشن کی حمایت کے امکان کو مسترد کرتا ہے۔
افغان ترجمان نے دعویٰ کیا کہ امیر اللہ متقی نے امریکی حکام سے ملاقات میں ایک بار پھر اپنی حکومت کے اس عزم کی تجدید کی کہ کسی کو افغان سرزمین، ہمسایہ اور دیگر ممالک کو نقصان پہنچانے کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
امریکا کی جانب سے مذاکرات کے بعد افغان اثاثوں کی بحالی سے متعلق کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا، تاہم اسی ہفتے امریکی میڈیا نے دعویٰ کیا تھا کہ امریکا اور طالبان حکام کے درمیان افغانستان کے مرکزی بینک کو منجمد رقوم تک رسائی کی اجازت دینے پر بات چیت جاری ہے۔
دھیان رہے کہ امریکی صدر جوبائیڈن نے افغان اثاثوں جن کی مالیت 7 ارب ڈالر بنتی ہے، سے نصف افغان عوام اور نصف نائن الیون کے متاثرین کو دینے کا اعلان کیا تھا، جسے طالبان حکومت نے مسترد کردیا تھا۔