بجلی کے نرخ میں 4 روپے 74 پیسے فی یونٹ اضافے کا فیصلہ
اسلام آباد: نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے صارفین کے لیے اکتوبر میں استعمال شدہ بجلی پر ایندھن کی لاگت کی مد میں بجلی کے نرخ 4 روپے 74 پیسے بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے، جس سے دسمبر میں 60 ارب روپے کا اضافی ریونیو حاصل ہوگا۔
رپورٹ کے مطابق اس کا فیصلہ نیپرا چیئرمین توصیف ایچ فاروقی کی سربراہی میں سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی (سی پی پی اے) کی درخواست پر ہونے والی عوامی سماعت کے اختتام پر کیا گیا۔
درخواست میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ تقسیم کار کمپنیوں کو آئندہ ماہ میں 61 ارب روپے حاصل کرنے کے لیے 4 روپے 75 پیسے اضافی ایندھن کی لاگت وصول کرنے کی اجازت دی جائے۔
نیپرا کے کیس افسران نے نشاندہی کی کہ ایل این جی کی قلت کی وجہ سے ایک ارب 69 کروڑ روپے اور معاشی میرٹ آرڈر کی خلاف ورزی پر ایک ارب 77 کروڑ روپے کا اضافی بوجھ پڑا۔
سی پی پی اے کے نمائندے نے وضاحت کی کہ بجلی کی کمپنیوں نے اکتوبر کے لیے 70 کروڑ مربع فٹ یومیہ کا مطالبہ کیا تھا لیکن مجموعی طور ہر 606 ایم ایم سی ایف ڈی گیس فراہم کی گئی۔
نیپرا عہدیداروں نے کہا کہ اکتوبر کے لیے حوالہ جاتی قیمت میں فرنس آئل سے بجلی کی پیداوار 0.2 فیصد رہنے کا تخمینہ تھا لیکن وہ 11 فیصد رہی اور کوئلے سے بجلی کی پیداوار 25 فیصد رہنے کا تخمینہ تھا جو کوئلے سے چلنے والے کچھ بجلی گھروں بشمول حب پاور کی 6 ماہ سے زائد تک بندش کی وجہ 15 فیصد رہی۔
رپورٹ کے مطابق بجلی کی مخلوط ایندھن سے پیداوار کا نتیجہ ایندھن کی 44 ارب روپے اضافی لاگت کی صورت میں نکلا جبکہ باقی اضافہ بین الاقوامی سطح پر ایندھن کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے ہوا۔
علاوہ ازیں ایندھن کی اس لاگت میں ماضی کے تقریباً 5 ارب 20 کروڑ روپے کے دعوے بھی شامل ہیں۔
اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ اکتوبر 2021 میں بجلی کی پیداوار تخمینے سے 18 فیصد جبکہ گزشتہ برس کے اسی ماہ کے مقابلے 11 فیصد بلند رہی، تاہم یہ واضح نہیں کہ کیا یہ صنعتی امدادی پیکج کی مد میں معمول کی نمو ہے۔
نیپرا عہدیداروں نے کہا کہ اگر ایندھن کی قیمت میں اتنا زیادہ اضافہ صنعت کو سستی توانائی کی فراہمی کے لیے طلب میں اضافے کی وجہ سے ہے تو فوری طور پر اس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔
نیپرا نے خود اس معاملے کو دیکھنے کا فیصلہ کیا اور سی پی پی اے سے بھی کہا کہ وہ اس طرح کے جائزے کے لیے ہاتھ ملا لے کیونکہ یہ حکومت کا مشترکہ فیصلہ تھا۔
ریگولیٹر نے اس حوالے سے تشویش کا اظہار کیا کہ ایندھن کی لاگت میں اتنے بڑے اضافے کا بوجھ صارف اٹھائیں جبکہ پاور ڈویژن نے اہم اسٹیک ہولڈر ہونے کے باوجود اس عوامی سماعت میں شرکت کی زحمت گوارا نہیں کی۔
ریگولیٹر نے تقریباً چھ ماہ سے 600 میگاواٹ کے بڑے کول پلانٹ کی عدم دستیابی پر بھی سوالات اٹھائے اور یہ واضح نہیں کہ اس کی وجہ آسمانی بجلی ہے جیسا کہ اسپانسرز نے دعویٰ کیا، یا سرکاری اداروں کی رپورٹ کے مطابق مینوفیکچرنگ کی خامی کی وجہ سے بند ہیں۔
تقسیم کار کمپنیوں کی جانب سے سی پی پی اے نے دعویٰ کیا کہ کمپنیوں نے اکتوبر میں صارفین سے بجلی کی 5 روپے 17 پیسے فی یونٹ قیمت وصول کی جبکہ ایندھن کی اصل لاگت 58 فیصد زیادہ یعنی 9 روپے 93 پسے فی یونٹ رہی۔
لہٰذا صارفین سے 4 روپے 75 پیسے اضافی وصول کیے جانے چاہیے، کچھ رد و بدل کے بعد نیپرا نے ایندھن کی لاگت 4 روپے 74 پیسے مقرر کردی جس کا نوٹی فکیشن آئندہ چند روز میں جاری کردیا جائے گا۔
ریگولیٹر کے نوٹی فکیشن کے بعد بجلی کے زیادہ نرخ آنے والے بلنگ مہینے یعنی دسمبر میں تمام صارفین سے وصول کیے جائیں گے، سوائے ان صارفین کے جو ماہانہ 50 یونٹ سے کم استعمال کرتے ہیں۔
اکتوبر میں پانی سے بجلی کی پیداوار 25.48 فیصد کے تخمینے کے مقابلے کم ہو کر 23.26 فیصد رہی۔
سی سی پی اے کے مطابق گزشتہ ماہ تمام ذرائع سے بجلی کی مجموعی پیداوار 11 ہزار 296 گیگا واٹس آور رہی جس کی لاگت ایک کھرب 50 کروڑ 60 لاکھ روپے یا 9 روپے 30 پیسے فی یونٹ رہی۔