وفاقی حکومت کا سندھ کے 14 اضلاع کیلئے ترقیاتی منصوبوں کا اعلان
سندھ حکومت کو ’خراب کارکردگی‘ پر تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے وفاقی وزرا نے انہیں ملک میں مہنگائی کا زمہ دار ٹھہرایا، وزیر اعظم عمران خان نے دعویٰ کیا کہ مرکزی حکومت سندھ کے 14 اضلاع میں 444 ارب روپے کے تحت ترقیاتی کام منصوبے سر انجام دے گی۔
وفاقی وزیر برائےصنعت و پیداوار خسرو بختیارنے بتایا کہ سندھ کھاد کی ذخیرہ اندوزی کرنے والوں گڑھ بن گیا ہے جبکہ وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات فرخ حبیب اور وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے امور نوجوانان عثمان ڈار نے پریس کانفرنس میں صوبے میں بڑھتی ہوئی مہنگائی پر سندھ حکومت کی کارکردگی کی مذمت کی۔
تاہم سندھ کی حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی وفاقی حکومت کو جوابی تنقید کا نشانہ بنایا۔
ترقیاقی منصوبوں کے نفاذ پر منعقدہ اجلاس میں وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت سندھ کے 14 اضلاع میں ترقیاتی منصوبوں میں کام کرے گی۔
اجلاس میں وفاقی وزیر ڈاکٹر فہمیدہ مرزا، اسد عمر، حماد اظہر سمیت دیگر عہدیداران نے بھی شرکت کی۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ مذکورہ منصوبوں کا مقصد صوبے میں رہنے والے شہریوں کے سماجی و اقتصادی حالات بہتر کرنا ہے۔
انہوں نے ہدایت دی کہ صوبہ سندھ کے کم ترقی یافتہ دیہی علاقوں کو ترجیح دی جائے اور ان علاقوں میں خوشحالی کو یقینی بنایا جائے۔
انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سابقہ حکومتوں نے سندھ کی ترقی کو نظر انداز کیا ہے۔
ترقیاتی منصوبوں کے نفاذ سے متعلق شفافیت، کام کا معیار اور مقررہ مدت کے حوالے سے وزیر اعظم عمران خان نے متعلقہ اداروں کو کہا کہ حیدر آباد سکھر موٹر وے اور بدین، گھوٹکی، تھر، میر پور خاص، ٹنڈو محمد خان حیدر آباد اور سانگھڑ میں اسپورٹ کمپلکسز کی تعمیر کا کام تیزی سے مکمل کیا جائے۔
ترقیاتی منصوبوں میں سڑکوں، موٹر ویز، ہاؤسنگ، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیلی کام، آبی وسائل، صحت، ہائر ایجوکیشن، ووکیشنل ٹریننگ، ڈیزاسٹر مینجمنٹ، ریلویز، توانائی اور کھیلوں کی سرگرمیوں سے متعلق منصوبے شامل ہیں۔
اجلاس کو آگاہ کیا گیا کہ سندھ کے 48 منصوبے پبلک سیکٹر ڈیوپلمنٹ (پی ایس ڈی پی) پر مشتمل ہیں اور 50 منصوبے بغیر پی ایس ڈی پی کے تعمیر کیے جائیں گے جبکہ ان میں 7 پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے منصوبے بھی شامل ہیں۔
حکومت نے 26 نئے پی ایس ڈی پی منصوبے منظور کرتے ہوئے مالی سال 22-2021 کے بجٹ میں ان کے لیے مالیاتی وسائل مقرر کیے ہیں۔
منصوبہ ساز کمیشن نے وفاقی حکومت کے 8 ڈویژن اور اداروں کے 16 ارب 30 کروڑ 40 لاکھ روپے مختص کیے ہیں۔
دریں اثنا، وفاقی وزرا نے ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کا ذمہ دار سندھ حکومت کو ٹھہراتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ سندھ حکومت نے صوبے کی عوام کو مافیا کےرحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ چینی کی قیمت 150 روپے فی کلو گرام تک پہنچ چکی ہے، سندھ حکومت نے ملوں کو گنے کی فراہمی روک دی اور بعد ازاں چینی کے ذخیرے کو مارکیٹ پہنچانے سے بھی روکا۔
انہوں نے کہا کہ سندھ میں اشیا خورونوش اور اشیا ضروریہ کی قیمت دیگر صوبوں کے مقابلے میں اب بھی زیادہ ہیں۔
وفاقی وزرا کی تنقید کا جواب میں ترجمان پیپلز پارٹی فیصل کنڈی نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ’عمران خان سندھ کے حوالے سے اتنے پریشان کیوں ہیں؟‘۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ سندھ واحد صوبہ ہے جہاں سرطان، امراض قلب، گردوں و پھپھڑوں کی بیماریوں کا مفت علاج کیا جاتا ہے۔
فیصل کنڈی کا کہنا تھا کہ ملک کا سب سے بڑا ٹراما سینٹر سندھ میں کام کررہا ہے۔
انہوں سوال کیا کہ ’اگرسندھ میں کچھ نہیں کیا گیا تو ملک بھر سے سفر کر کے شہری طبی سہولیات اور علاج کے لوگ سندھ کیوں آتے ہیں‘۔