لندن سے ایک خط

لندن میں مقیم صحافی فیضان عارف کی دل کو جھنجھوڑتی تحریر

فیضان عارف

نرسرییہ لندن کا ایک مضافاتی علاقہ ہے، گریٹر لندن کے مشرق اور کینٹ کے سنگم پر واقع یہ سرے کاؤنٹی اپنے خوبصورت لینڈ سکیپ اور درختوں کی بہتات کی وجہ سے اُن لوگوں کے لیے خاص کشش رکھتی ہے جو فطرت اور فطری حسن سے محبت کرتے ہیں۔

اس کاؤنٹی میں انسان کم اور درخت زیادہ ہیں۔ یہ موسم گرما کی رخصتی کے دن تھے جب میں اس علاقے کی ایک کشادہ نرسری سے کچھ پودے لینے کے لیے یہاں پہنچا۔ کئی ایکڑ پر پھیلی اس نرسری میں لوگوں کی آمدورفت بہت کم تھی۔ پھولوں کے پودوں کے علاوہ یہاں سیب، بگوگوشے، آلوبخارے، خوبانی، چیری، انجیر اور انگور کے پودوں کی درجنوں اقسام فروخت کے لیے موجود تھیں۔ میں اس نرسری میں گھومتا پھرتا اُس حصے میں پہنچ گیا جہاں چھوٹے چھوٹے گملوں میں مختلف اقسام کے ہزاروں پودے مٹی سے سرنکال کر ایک کونپل کی شکل اختیار کرچکے تھے اور یوں لگ رہا تھا کہ یہ کونپل نما پودے ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرا رہے ہیں۔ ان ننھے پودوں کی خصوصی دیکھ بھال کے لیے درجہ حرارت اور روشنی کے علاوہ پانی اور خوراک کا خاص خیال رکھا گیا تھا۔ اس حصے کی نگہداشت کے لیے کئی لوگ یہاں کام کررہے تھے۔ ایک حصے میں ہزاروں گملوں میں پھل دار پودوں کی قلمیں بھی لگی ہوئی تھیں جن پر جگہ جگہ جگہ کونپلیں پھوٹ رہی تھیں۔ ان نازک پودوں کے اوپر شفاف پلاسٹک کی چھت تاحد نظر پھیلی ہوئی تھی۔ چھوٹے چھوٹے گملوں کی لمبی لمبی قطاریں دیکھ کر مجھے یوں لگا جیسے کسی اسکول کی اسمبلی میں ننھے بچے خاموش کھڑے ہیں۔ مجھے حیرت زدہ دیکھ کر یہاں کام کرنے والی ایک گوری خاتون نے آ کر مجھ سے پوچھا، ”کیا میں تمہاری کوئی مدد کر سکتی ہوں؟“ میں نے چونک کر جواب دیا، ’’نہیں شکریہ میں تو گملوں میں ننھے ننھے پودوں کی لمبی قطاریں دیکھ کر حیران ہورہا ہوں‘‘۔ وہ مسکراتے ہوئے کہنے لگی، ’’ہماری اصل نرسری یہی ہے ہم یہاں پودوں کے جڑ پکڑنے تک اُن کی خصوصی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ جب یہ ایک شاخ کی شکل اختیار کر لیتے ہیں تو ہم انہیں باہر کھلی فضا میں سہارا دے کر سیدھا کھڑا کردیتے ہیں، جہاں یہ موسم کی شدت کو برداشت کرنے کے عادی ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ اس کے بعد انہیں جو بھی لے جا کر گملے سے نکالنے کے بعد زمین میں لگائے گا وہاں یہ چند سال میں تناور درخت بن کر برس ہا برس پھل دیں گے۔ ہمارا یہ سیکشن اسکولوں کی نرسری جیسا ہے جہاں چھوٹے بچوں کی دیکھ بھال کا خاص خیال رکھا اور اہتمام کیا جاتا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ مسکراتے ہوئے چلتی بنی اور میں سوچنے لگا کہ یہ انگریز بھی کیا ”عجیب“ قوم ہے، بچوں اور پودوں کی نرسری کو سب سے زیادہ اہمیت دیتی ہے اور اس ابتدائی مرحلے پر ان کی دیکھ بھال اور نگہداشت کو ان کی آئندہ زندگی کی بنیاد سمجھتی ہے اور ایک ہم ہیں کہ اپنے ملک میں ایک سے ایک غیر معیاری یونیورسٹی بنا کر خود کو تسلی دیتے ہیں کہ پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کا جال (نیٹ ورک) بچھ گیا ہے، حالانہ پاکستان سمیت دنیا کے ہر ترقی پذیر ملک میں سب سے بڑی ضرورت بہترین اور معیاری پرائمری ایجوکیشن ہے۔

جب تک ہم اپنے ملک کے سو فیصد بچوں کو تعلیم و تربیت یافتہ نہیں بنائیں گے اُن کی ایسے نگہداشت اور دیکھ بھال نہیں کریں گے جیسے ننھے پودوں کی نرسری میں کی جاتی ہے تو اس وقت تک ہم مہذب قوم اور باشعور معاشرے سے محروم رہیں گے۔ ڈگری یافتہ، نا اہل لوگوں کی کھیپ تیار کرنے اور یونیورسٹی پر یونیورسٹی کھولنے کی بجائے وہ کام کرنا سب سے زیادہ ضروری اور ناگزیر ہے جس کے کرنے سے ترقی پذیر ممالک ترقی یافتہ اور خوشحال ہوئے، یعنی اپنے ملک میں پرائمری ایجوکیشن کو اپنی پہلی ترجیح بنائیے۔ جب تک آپ نرسری میں پنیری لگا کر ان کی دیکھ بھال پر توجہ نہیں دیں گے آپ کو ایسے درخت اور پودے میسر نہیں آئیں گے جو پسماندگی میں جھلسنے والی قوم کو سایہ اور پھل فراہم کر سکیں۔ اگر آپ ملک میں واقعی کوئی مثبت تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو پرائمری ایجوکیشن کو خصوصی توجہ دیں بلکہ اسے اپنی پہلی ترجیح میں شامل رکھیں۔ پاکستان کے سو فیصد بچوں کے لیے ایک جیسی معیاری تعلیم و تربیت کی پالیسی بنائیں اور پھر دیکھیں کہ پندرہ سے بیس برس بعد اس ملک میں خوشگوار تبدیلی کے آثار خودبخود نمایاں ہونا شروع ہو جائیں گے۔ یہ الگ بات ہے کہ آپ اس وقت اقتدار میں رہیں یا نہ رہیں لیکن آپ کے لگائے ہوئے پودوں اور درختوں سے ملک و قوم کو سایہ اور پھل میسر آنا شروع ہو جائے گا۔

چند برس پہلے پاکستان کے ایک سیاست دان لندن آئے جو ایک زمانے میں وزیر تعلیم بھی رہ چکے تھے۔ میں نے ایک نجی محفل میں اُن سے استفسار کیا کہ ”ہماری حکومتیں پرائمری ایجوکیشن پر کیوں توجہ نہیں دیتیں اور اس کو اپنی پہلی ترجیح کیوں نہیں بناتیں؟“ انہوں نے جواب میں بڑی دلچسپ بات کہی۔ وہ کہنے لگے کہ ”پرائمری ایجوکیشن اور قوم کو تعلیم و تربیت یافتہ بنانے کا معاملہ ایک طرح سے بیس سالہ منصوبہ ہے اور یہ وہ کام ہے جس پر تمام وسائل صرف کرنے سے اس کا فوری نتیجہ نہیں نکلتا اور ہماری حکومتوں کو صرف ایسے منصوبے بنانے کا خبط ہوتا ہے جس کا ڈھنڈورا پیٹ کر وہ اگلے الیکشن میں ووٹ مانگ سکیں اور یہ بتاسکیں کہ ہم نے موٹر وے بنادی، یونیورسٹیاں کھول دیں، اسپتال تعمیر کردئیے، ڈیم کے تعمیراتی منصوبے کا افتتاح کر دیا۔ عوام اور ووٹر ایسے کاموں کے بہکاوے میں آکر سیاست دان کو ووٹ دیتے ہیں اور اگر کوئی حکومت ان کاموں کی بجائے اپنے وسائل پرائمری ایجوکیشن اور قوم کو سو فیصد خواندہ بنانے پر خرچ کرے تو اس کا فوری نتیجہ عوام کے سامنے نہیں آئے گا اور کسی بھی حکومتی پارٹی کے لیے آئندہ انتخابات میں اپنے کارنامے گنوانے کے لیے محض پرائمری ایجوکیشن کو اپنی پہلی ترجیح بنانے کا کارنامہ کافی نہیں ہوگا اور ویسے بھی ہمارے سیاستدان اور حکمرانوں کو پڑھی لکھی اور تربیت یافتہ قوم ”وارا“ نہیں کھاتی اسی لیے وہ چاہتے ہیں کہ طبقاتی نظام قائم رہے، مدرسوں اور سرکاری اسکولوں میں پڑھنے والے بچے کبھی کسی ایچی سن اور اعلیٰ پبلک سکول میں تعلیم یافتہ بچوں کے مقابلے پر نہ آ سکیں۔ اسی درجہ بندی نے ہماری قوم کی اکثریت کی ترقی اور خوشحالی کا راستہ روک رکھا ہے۔‘‘ میں اپنے اس معزز سیاستدان کا یہ اعتراف سن کر حیران رہ گیا اور مجھے اندازہ ہوا کہ ہمارے سیاست دان اور حکمران جو پوری دنیا میں گھومتے پھرتے اور سرکاری دورے کرتے ہیں اور مختلف ملکوں کی ترقی اور خوشحالی کا جائزہ بھی لیتے ہیں، انہیں اس حقیقت کا خوب اچھی طرح ادراک ہے کہ ہماری قوم کی پسماندگی اور بدحالی کی وجہ کیا ہے، لیکن وہ اس کے باوجود اپنی قوم کی پرائمری تعلیم وتربیت کو سو فیصد یقینی بنانے کے لیے کوئی ٹھوس اور مؤثر منصوبہ بندی نہیں کرتے کیونکہ وہ اس حقیقت سے اچھی طرح آگاہ ہیں کہ اگر 22 کروڑ لوگ آئندہ پندرہ بیس برس تک تعلیم و تربیت یافتہ ہوگئے تو ان نام نہادعوامی نمائندوں، سیاست دانوں اور حکمرانوں کی اپنی اوران کی آئندہ نسلوں کی بقا اور بالا دستی خطرے میں پڑ جائے گی۔ اگر پاکستان کے 22 کروڑ عوام آنے والی دودہائیوں کے بعد تعلیم و تربیت یافتہ ہو گئے تو نہ صرف ملک سے انتہا پسندی کا خاتمہ ہو جائے گا بلکہ طبقاتی تقسیم اور پسماندگی ختم ہو گی، تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کا سدباب ہوجائے گا، نا انصافی اور اقربا پروری اپنے انجام کو پہنچے گی، ملاوٹ اور دونمبری کرنے والے اپنے کیفرِ کردار تک پہنچیں گے، عوام کو سبز باغ دکھانے والے سیاست دان اور حکمران کی کوئی گنجائش نہیں رہے گی، معاشرتی ہم آہنگی اور رواداری کو فروغ ملے گا، مذہبی ٹھیکے داروں کے لیے کسی کو ورغلانا آسان نہیں رہے گا۔ سستے اور فوری انصاف کی راہ ہموار ہوگی،ماحولیاتی آلودگی کے بارے میں آگاہی سے ملک صاف ستھرا ہونا شروع ہوگا، رنگ و نسل اور علاقائیت سے بالاتر ہو کر سب کو ترقی کے یکساں مواقع میسر آئیں گے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟ جو لوگ ملک میں پرائمری تعلیم و تربیت کی منصوبہ بندی کر کے اس پر سو فیصد عمل کرنے کا اختیار رکھتے ہیں، وہ کبھی نہیں چاہتے کہ ”سٹیٹس کو“ کا طلسم ٹوٹے، قوم تعلیم یافتہ ہو، تربیت یافتہ ہو لیکن کب تک؟ پسماندہ عوام کی تیسری بلکہ چوتھی نسل چلتے چلتے تھک گئی ہے لیکن دور دور تک منزل کا کہیں نشان نہیں ہے۔ ویسے تو کہتے ہیں کہ امید پہ دُنیا قائم ہے لیکن اگر ہم لاہور سے کراچی جانے والی ریل گاڑی پر سوار ہو کر اس خوش فہمی یا غلط فہمی میں مبتلا ہو جائیں کہ ہم پشاور پہنچ جائیں گے تو پھر ایسے مسافروں کا خدا حافظ جو ریل گاڑی کی سمت درست کرنے کی بجائے ڈرائیور بدلنے پر اصرار کرتے ہیں۔ ہم بھی کیسی عجیب قوم ہیں،اپنے خلاف دنیا بھر کی سازشیں اور اسلام دشمن کافروں کی چالبازیاں تو فوراً نظر آجاتی ہیں لیکن ہمارے اپنے مسلمان اربابِ اختیار جو مذہب، سیاست اور خدمت کا لبادہ اوڑھ کر ہماری آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں وہ ہمیں دکھائی نہیں دیتے۔ ایک نابینا شخص رات کے وقت لالٹین لے کر کسی گلی سے گزر رہا تھا، ایک راہگیر نے پوچھا تم تو اندھے ہو یہ لالٹین کس لیے ساتھ لیے پھر رہے ہو۔ نابینا شخص مسکراتے ہوئے بولا، یہ اُن کے لیے ہے جن کو دکھائی دیتا ہے۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔