شاباش وزیراعظم!
یہ جراتمندانہ اقدام صرف عمران خان ہی کرسکتے ہیں
وزیراعظم عمران خان نے موجودہ چینی بحران پر ایف آئی اے کی رپورٹ کو منظرعام پر لانےکاجو جراتمندانہ فیصلہ کیا اس کی پاکستانی سیاسی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی۔پاکستان تحریک انصاف کے سینئرترین رہنما اور وزیراعظم کے قریبی دوست جہانگیرترین ،وفاقی وزیر خسرو بختیار کے رشتہ داراور اہم ترین اتحادی جماعت ق لیگ کے رہنما مونس الہیٰ سمیت اہم سیاسی شخصیات کے مالی فوائد حاصل کرنے کا انکشاف رپورٹ میں کیا گیا ہے۔وزیراعظم نے ایف آئی کی اعلیٰ سطحی انکوائری کا حکم دیا تھا اور اس ٹیم کی سربراہی موجودہ سربراہ ایف آئی اے اور نوازشریف کی جے آئی ٹی کے سربراہ واجدضیا تھے جنھوں نے تفصیلی رپورٹ وزیراعظم کو جمع کرائی جس کو وزیراعظم منظرعام پر لے آئے۔
ماضی میں اس طرح کی رپورٹس دبا دی جاتی تھیں جبکہ اس دفعہ وزیر اعظم نے انتہائی جرات اور دیانتدارنہ اقدام کرکے پوری قوم کے دل اور اعتماد جیت لیا ہے۔ واضح رہے کہ جہانگیر ترین کے سیاسی اور مالی اثرورسوخ کے بدولت پاکستان تحریک انصاف نے پنجاب میں حکومت بنائی اور جہانگیر ترین کا شمار پارٹی کے بڑے فنڈرز میں ہوتا ہے۔دوسری جانب فائدہ حاصل کرنے والوں میں مونس الہیٰ کا نام بھی رپورٹ میں شامل ہے جن کے والد پرویز الہٰی سابق وزیراعلیٰ پنجاب، موجودہ پنجاب اسمبلی کے اسپیکراور حکومت کے اہم ترین اتحادی ہیں۔یہ بات تو واضح ہے کہ جہاں ایک طرف عمران خان نے اپنی صفوں سے احتساب کے عمل کا آغاز کرکےقوم کی داد سمیٹی دوسری جانب اس فیصلے کے دوررس سیاسی نتائج نکلیں گے جو عمران خان کی حکومت کے لئےمثبت نہیں ہونگے۔ ایک طرف پارٹی کا شیرازہ بکھرنے کا امکان ہے اور دوسری جانب اہم اتحادی پارٹی اگر حکومت سے الگ ہوئی تو نہ صرف پنجاب حکومت بلکہ مرکز میں بھی حکومت گر سکتی ہے۔
اس سارے منظر نامے میں ایک ایسا پہلو بھی ہے جو بہت حد تک عوام کی نظروں سے اوجھل ہے، رپورٹ میں اس کاروباری اجارہ داری کو ان تمام بحرانوں کی جڑ قرار دیا ہے جس کے نتیجے میں ملک کے ۶ بڑے سیاسی گروپ ملکی چینی پیداوار کے ۵۰ فیصد سے زائد پر اپنا کنٹرول رکھتے ہیں اور اپنی مرضی سےمارکیٹ پر اثرانداز ہوسکتے ہیں۔ ان خاندانوں میں جہانگیر ترین اور دیگر موجودہ حکومتی شخصیات کے علاوہ شریف خاندان اور آصف زرداری کے تعلق سے مشہور اومنی گروپ بھی شامل ہے، حیرت انگیز امر یہ ہے کہ جہانگیرترین گروپ کی ۶ شوگر ملز ہیں جبکہ شریف خاندان کی ۹ اور اومنی گروپ کی ۱۰ ملز ہیں۔
اپوزیشن اس معاملے میں اپنی منفی سیاست سے باز نہیں آرہی اور مسلسل سیاسی پوانٹ اسکورنگ کرتے ہوئے وزیراعظم کو ہدف تنقید بنائے ہوئے ہے دوسری جانب میڈیا کی جانب سے بھی اس پورے معاملے میں محض موجودہ حکومتی شخصیات کا ہی نام لیا جارہا ہے جو افسوسناک ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اپوزیشن اور میڈیا اس تاریخی اقدام پر سیاسی وابستگی سے بالاتر ہوکر وزیراعظم کو اپنی صفوں سے احتساب کے عمل کو شروع کرنے پر خراج تحسین پیش کریں اور ان سیاسی خاندانوں کا بھی ذکر کریں جو متعدد بار حکومتوں میں رہے اور ان بحرانوں سے اپنی جیب بھرتے رہے۔