وادی سندھ کی تہذیب کی معدوم زبان
عالمی ماہرین کی موجودہ تحقیق کے مطابق وادی سندھ کی تہذیب 8000 سال قدیم ہے۔ اس رائے کے پیش نظر کہا جا سکتا ہے کہ وادی سندھ کی زبان بھی اتنی ہی قدیم ہے جتنی وادی سندھ اور اس کی تہذیب قدیم ہے، مگر آج تک یہ زبان معدومی کا شکار ہے۔
دنیا بھر کے ماہرین نے وادی سندھ کی زبان پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کی ہے مگر اب تک انہیں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔ وادی سندھ کی زبان اور اس کی تحریریں کثیر تعداد میں ہڑپہ اور موہن جو دڑو سے دریافت ہوئیں۔ یہ تحریریں 1922ء سے لے کر آج تک معدومی کے عالم میں ہیں۔ وادی سندھ کی زبان بالخصوص موہن جو دڑو کی زبان کون سی تھی، یہ آج تک ایک معمہ ہے۔ آسکو پارپولا اور دوسرے ماہرین نے موہن جو دڑو سے ملنے والی تحریروں کی روشنی میں اپنے مختلف مضامین اور کتب میں بحث کرتے ہوئے تحریروں کی ارتقا بیان کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ وادی سندھ کی تہذیب کی طرح تحریر یا انڈس سکرپٹ والی تحریر بھی ارتقائی مراحل سے گزری ہے۔ آسکو پارپولا کے مطابق وادی سندھ کی تحریر 7000 ہزار سال سے ارتقائی مراحل میں سے گزری ہے اور انڈس اسکرپٹ کا عروج 2500 قبل از مسیح سے 1900 قبل از مسیح تک ہے۔ اکثر ماہرین اس خیال کے حامی ہیں کہ وادی سندھ کے لوگ دراوڑ تھے اور ان کی زبان بھی دراوڑ یا ڈراویڈن تھی۔ وادی سندھ کی تہذیب 1900 قبل از مسیح میں اچانک صفحہ ہستی سے غائب ہوئی تو اسکی زبان اور تحریر معدومی کا شکار ہو گئی۔ اس معدومی کو آریا لوگوں نے زیادہ معدوم بنایا اور اس کی شناخت کو تاریکی کی غار میں دھکیل دیا۔ آریا لوگ وادی سندھ میں 1500 قبل از مسیح میں داخل ہوئے۔ انہوں نےمقامی دراوڑ لوگوں کو غلام بنایا۔ ان کی سرزمین اور املاک پر قبضہ کیا۔ ان کے بیوپار اور کاروبار کو برباد کیا۔ دراوڑں پر بھاری ٹیکس لگائے۔ انہیں کمتر اور نیچ کہنا شروع کیا۔ قیاس قرین ہے کہ آریوں کے قبضے اور مظالم کی وجہ سے وادی سندھ میں بسنے والے دراوڑوں کی تحاریر یا اس کا تحریری رکارڈ گم ہو گیا ہوگا۔ اس وجہ سے وادی سندھ کے دراوڑوں اور ان کی تحاریر کا تاریخی تعلق کسی بھی دراوڑ قوم یا زبان یا اس کے تحریری نظام سے نہیں ملتا۔ اس لئے وادی سندھ کی زبان یا تحریر آج تک معدوم ہی رہ گئی ہے۔ آریوں نے ویدک کلچر کو جنم دیا۔ وید زبانی طور بیان کیے گئے جو صدیوں تک سینہ بہ سینہ بیان ہوتے چلے آئے۔ ویدوں میں سب سے پرانا یا قدیم رگ وید ہے جو 1500 قبل از مسیح سے 1300 قبل از مسیح کے درمیان کہا گیا اور وہ تحریری رکارڈ پر 300 قبل از مسیح سے 200 قبل از مسیح میں لایا گیا۔ رگ وید سنسکرت میں کہا گیا جو آریوں کی زبان رہی۔ آریوں نے ہی سنسکرت تخلیق کی اور پھر پنڈتوں راجائوں اور ان کی دربار کی زبان بن گئی۔ سنسکرت کے پیروکار کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ وادی سندھ کی معدوم زبان اور تحریر کا تعلق سنسکرت سے ہے۔ اس مفروضے کی کوئی بنیاد نہیں۔ اگر دونوں میں تعلق ہوتا تو اب تک انڈس سکرپٹ پڑھ لیا جاتا۔ بڑی بات یہ ہے کہ سنسکرت کا کوئی قبیلہ یا قوم نہیں۔ تاریخی طور پر ثابت ہے کہ صدیوں سے سنسکرت کا اپنا تحریری نظام بھی نہیں رہا۔ مطلب کہ کسی بھی دور میں سنسکرت کی اپنا رسم الخط نہیں رہا۔ سنسکرت براہمی یا براہمی سے تعلق رکھنے والے کسی بھی اور اسکرپٹ میں تحریر کی جاتی تھی۔ اگر سنسکرت کا ویدک دور میں تحریری نظام ہوتا تو وید برزبان نسل در نسل بیان نہ کیے جاتے۔ وید 200 قبل از مسیح کے بجائے ویدک دور میں ہی تحریر کیے جاتے یا تجریری ریکارڈ پر لائے جاتے۔ کچھ ماہرین انڈس اسکرپٹ کا تعلق براہمی سے بتاتے ہیں۔ اگر اس طرح بھی ہوتا تو اب تک انڈس اسکرپٹ پڑھ لیا گیا ہوتا۔ ان مفروضوں کو آسکو پارپولا اور جوناتھن مارک کینایر نے بھی اپنی تحقیقی تحریروں میں رد کیا ہے۔ مشہور محقق اور سندھی زبان کے ماہر سراج الحق میمن کا خیال ہے کہ سندھی زبان کا تعلق وادی سندھ کی زبان سے ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ سندھی دراوڑوں کی زبان ہے جس کا انڈو آرین زبانوں سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ پروٹو ڈراویڈن زبان ہے۔ مزید لکھتے ہیں کہ ویدک دور کے ‘پنی’ اور ‘فونیشن’ یا ‘فنیقین’ کے تحریری نظام یا اسکرپٹ کا تعلق وادی سندھ کے تحریری نظام اور انڈس سکرپٹ سے ہے۔ مذکورہ لوگ وادی سندھ کے بیوپاری یا کاروباری لوگ تھے۔ میں دو اسباب یا وجوہات کے بنیاد پر سراج میمن کی تائید کرتا ہوں جو میرے موضوع میں بھی شامل ہے۔1- ماہرین کا کہنا ہے کہ سنسکرت میں کہے گئے رگ وید میں ادھار کے طور پر لیے گئے دوسری زبان کے الفاظ ہیں۔ رگ وید میں ادھار کے طور پر ان الفاظ کا تعلق بلکل سندھی زبان سے ہے۔ ان میں سے ایک دو الفاظ کی مثال شامل کرتا ہوں۔ ایک لفظ ہے ‘کری’ جس کا اردو میں مطلب ہے پرہیز۔ دوسرا ‘کرڑ’ جو ایک درخت کا نام ہے۔ تیسرا ‘ڈنڈو’ جسے اردو میں ڈنڈا کہتے ہیں جو لکڑی کا ہوتا ہے۔ لفظ کانو مطلب ایک آنکھ سے اندھا۔ ایسے کئی الفاظ ہیں جو اب بھی سندھی میں رائج ہیں۔ یہ ادھار لیے گئے الفاظ تین باتیں ثابت کرتے ہیں۔
ایک یہ کہ سندھی زبان سنسکرت سے جداگانہ حیثیت میں ویدک دور میں موجود تھی، دوسری یہ کہ سندھی کا تعلق وادی سندھ کی زبان سے ہوگا جس کی جڑیں آریون نے کاٹ اور اکھاڑ لیں، اور تیسری بات یہ کہ اس حوالے سے سندھی انڈو آرین نہیں بلکہ دراوڑ زبان ہے جو ویدک دور میں مکمل زبان تھی جس سے سنسکرت نے الفاظ ادھار لیے۔ البتہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ سنسکرت اور سندھی زبان نے ایک دوسرے کا اثر لیا اور دونوں نے متوازی طور پر ارتقا کا سفر طے کیا۔ یہ خیال بھی رد ہوتا ہے کہ سندھی زبان سنسکرت میں سے نکلی ہے۔ جس زبان سے الفاظ ادھار لیے گئے ہوں وہ یقیناً الگ اور مکمل زبان ہوگی۔2- میں نے تحصیل جوہی ضلع دادو سندھ کی حدود میں کھیرتھر پہاڑی سلسلے میں پہاڑوں ہر نقش کیا گیا انڈس اسکرپٹ دریافت کیا ہے، جس پر میری انگریزی میں کتاب ‘انڈس اسکرپٹ ان اسٹونز’ شایع ہوئی ہے۔ جہاں سے مجھے انڈس اسکرپٹ کی نقش و نگار ملے ہیں، وہ علاقہ موئن جو دڑو سے تقریباً 200 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ انڈس اسکرپٹ کے علاوہ یہاں اندازاً 700 عیسوی میں نقش کی گئی سنسکرت کی تحریریں پالی براہمی اور خروشتی اسکرپٹ بھی ملے ہیں۔ حاصل مطلب یہ کہ موئن جو دڑو سے باہر سندھ میں انڈس سکرپٹ کا ملنا ثابت کرتا ہے کہ وادی سندھ کے شہروں کا اس کے گاؤں اور پیاڑی علاقوں سے رابطہ تھا اور اس کی زبان بھی وہیں موجود تھی۔
ویدک دور میں سندھی زبان کا موجود ہونا اور یہاں سندھ کے پہاڑوں میں پتھروں پر انڈس اسکرپٹ ملنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ وادی سندھ کی معدوم زبان کا تعلق سندھی زبان سے ہوگا۔ اگر انڈس اسکرپٹ پڑھا اور سمجھا گیا تو وادی سندھ کی زبان معدومی سے نکل آئےگی اور دوسری طرف سندھی زبان جو اب انڈو آرین زبان کے گروہ میں شامل ہے وہ بھی اس معدومی سے نکل کر دراوڑی زبان میں شامل کی جائےگی۔