پاکستانی مدر ٹریسا ڈاکٹر رتھ فاؤ کو بچھڑے 4 برس بیت گئے
کراچی: پاکستان میں جذام کے مریضوں کے علاج کے لیے اپنی زندگی وقف کرنے والی ڈاکٹر رتھ فاؤ کی چوتھی برسی آج منائی جا رہی ہے۔
پاکستان کی مدر ٹریسا کے نام سے مشہور ہونے والی یہ مسیحا 10 اگست 2017 کو جہان فانی سے کوچ کر گئی تھیں۔
9 مارچ 1929 کو جرمنی میں پیدا ہونے والی رتھ فاؤ میں انسانیت کا جذبہ کُوٹ کُوٹ کر بھرا تھا اور یہی جذبہ انہیں مشنری تنظیم کے قریب لے آیا اور انہوں نے انسانیت کی خدمت کو اپنا مقصد حیات بنا لیا۔
ڈاکٹر رتھ فاؤ کو 1960 میں مشنری تنظیم کی جانب سے پاکستان بھیجا گیا۔ یہاں آکر انہوں نے جذام کے مریضوں کی حالت زار دیکھی تو واپس نہ جانے کا فیصلہ کر لیا۔
پاکستانی مدر ٹریسا نے کراچی ریلوے اسٹیشن کے پیچھے میکلوڈ روڈ پر جذام سے متاثرہ افراد کی بستی میں “میری ایڈیلیڈ لیپرسی سنٹر‘ کے نام سے جھونپڑی میں فری کلینک کا آغاز کیا مگر مریضوں کی تعداد بڑھنے پر 1963 میں باقاعدہ ایک کلینک خرید لیا۔
جذام کے زیادہ سے زیادہ مریضوں کی مسیحائی کے لیے انہوں نے کراچی کے دوسرے علاقوں میں بھی چھوٹے کلینک قائم کیے اور یہ نیٹ ورک بڑھتے بڑھتے 157 لیپرسی سینٹرز تک پہنچ گیا۔
ڈاکٹر رتھ فاؤ کی کوششوں کے باعث عالمی ادارہ صحت نے 1996 میں پاکستان میں جذام کے مرض کو قابو میں قرار دے دیا۔
ان گراں قدر خدمات کے اعتراف میں پاکستانی حکومت کی جانب سے انہیں 1979 میں ہلال امتیاز اور 1989 میں ہلال پاکستان کے اعزازت سے نوازا گیا جبکہ 1988 میں انہیں پاکستانی شہریت دی گئی۔
یہ عظیم شخصیت 10 اگست 2007 کو جہان فانی سے کوچ کر گئیں۔
پاکستان کی مدر ٹریسا ڈاکٹر رتھ فاؤ کے بارے میں جاننے کے لیے ان کی آخری آرام گاہ پر کیو آر کوڈ لگایا گیا ہے جسے اسکین کرنے سے ان کی زندگی کے دریچے کھل جاتے ہیں۔
ڈاکٹر رتھ فاؤ کی آخری آرام گاہ پاکستان کی پہلی ڈیجٹلائز قبر ہے