نشے کے لیے گاڑیاں چوری کرنے والا خواتین کا گروہ

کبھی کبھی نشے کی راہ جرم تک پہنچادیتی ہے۔ کراچی میں نشے کی لت پوری کرنے کے لیے گاڑیوں کی چوری کرنے والے بین الصوبائی گروہ نے پولیس اور سماجی ماہرین کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے، حال ہی میں اے وی ایل سی کے ہاتھوں گرفتار کار لفٹر گینگ میں خواتین ملزمان بھی شامل تھیں، ملزمان نے اہم انکشافات کرتے ہوئے بتایا کہ ہیروئن کی ایک پڑیا کے عوض کراچی سے گاڑیاں چوری کرکے ساکران میں موجود منشیات فروش گینگ کو بیچ دیتے ہیں۔۔۔


نشہ محض اس وجہ سے سماجی برائی نہیں کہ یہ انسان کی ذہنی، جسمانی صحت کے لیے مضر ہے بلکہ نشے کے عادی افراد بعض اوقات اپنی مجرمانہ سرگرمیوں کے باعث سارے سماج کے لیے تکلیف کا باعث بنتے ہیں۔ منشیات کی اسمگلنگ اور فراہمی میں ملوث گروہ منظم جرائم کو بھی اپنے وجود کا حصہ بنائے ہوئے ہیں۔ جو لوگ منشیات کے دھندے سے وابستہ ہیں، وہ لازمی طور پر دیگر جرائم کی سرپرستی بھی کرتے ہیں، کیوں کہ منشیات کے تمام ڈانڈے کسی نہ کسی سطح پر جرائم کی دنیا سے جا ملتے اور ایک دوسرے میں پیوست ہیں۔


کراچی میں پولیس کے اینٹی وہیکل سیل نے نشے کی لت کو پورا کرنے کے لیے منظم انداز میں جرائم کرنے پر ملزمان کو گرفتار کیا ہے۔ ان ملزمان نے دوران تفتیش کراچی سے چوری شدہ موٹر سائیکلیں کوڑیوں کے دام اور نشے کے عوض دینے کا انکشاف کیا؟ ملزم عرفان نیولا نے دوران حراست بتایا کہ وہ اور اس کا ساتھی وقار کالا کافی عرصے سے ہیروئن پینے کے عادی ہیں اور نشے کی طلب پوری کرنے کے لیے کراچی کے مختلف مقامات سے موٹر سائیکل چوری کرتے تھے اور چوری شدہ موٹر سائیکلیں چیکو باغ ساکران لے جاتے ہیں، جہاں وہ منشیات فروش گروہ کے کارندے مُلا اور جانو نامی ملزمان کو بیچ دیتے، گرفتار ملزم کا دوران تفتیش کہنا تھا کہ ان کے گروپ میں 4 ملزمان ہیں، انہیں فی موٹر سائیکل کے بدلے 2 ہزار روپے اور 15 گرام نشہ ملتا ہے۔

ایس ایس پی عارف اسلم راؤ


اینٹی وہیکل سیل کے ایس ایس پی عارف اسلم راوؑ کا کہنا ہے کہ نشے کی لت کو پورا کرنے کے لیے منظم انداز میں کارلفٹنگ کرنے والے گینگ میں خواتین بھی شامل ہیں، ایسے گروہوں کے خلاف موثر کارروائی کررہے ہیں، حال ہی میں ایک اور کارروائی کے دوران دو خواتین سمیت 7 رکنی کار لفٹر گروہ گرفتار کرکے چھ کاریں برآمد کی ہیں، گرفتار ملزمان میں شجاعت، دانش، عطاء اللہ، احتشام، دانیال، قرۃ العین اور کنول شامل ہیں۔
ایس ایس پی عارف اسلم راؤ کے مطابق ملزمان سے برآمد شدہ گاڑیوں میں ہنڈا سِوک، ہنڈا سٹی، سوزوکی کلٹس اور آلٹو کاریں شامل ہیں جو کراچی کے مختلف علاقوں سے چوری کی گئی ہیں اور جن کے مقدمات درج ہیں، ان ملزمان میں میاں بیوی اور دیور بھی شامل ہیں، گروہ کے مرکزی کردار قرۃ العین عینی اور اس کا شوہر شجاعت ہیں، ملزمان اپنے نشے کی لت کو پورا کرنے اور تفریح کے لیے کاریں چراتے تھے، بعض اوقات نشے نشے میں ملزمان مسروقہ کاروں میں لانگ ڈرائیو پر نکل جاتے تھے، حالیہ وارداتوں میں ملزمان نے دو کاریں فروخت بھی کیں۔
ملزمان کے طریقہ واردات کے متعلق پولیس کا کہنا ہے کہ قرۃ العین کا دیور اپنے مرحوم بھائی کی ایکسائز پولیس کا یونیفارم استعمال کرتا تھا، لیکن جب اس کی والدہ کو اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے طیش میں آکر یونیفارم جلادیا، لیکن ملزم پھر بھی باز نہ آیا اور یونیفارم جل جانے پر وہ اپنے بھائی کی ایکسائز کیپ پہن کر واردات کرنے لگا، ملزمان مجموعی طور پر 20 کے قریب گاڑیاں چوری کرچکے ہیں۔

ڈاکٹر یحییٰ عامر (ماہر نفسیات)


نشے اور جرائم کے تانے بانے ملتے ہیں، منشیات اوردیگر جرائم کے موثر خاتمے اور روک تھام کے لیے بہت بڑے پیمانے پر اقدامات ناگزیر ہیں۔ نشے کے عادی منظم جرائم کیوں کرتے ہیں اور ایسے کون کون سے اقدامات ہیں، جن کی مدد سے سماج کو منظم جرائم کی شکل میں نشے کے اثرات سے بچایا جاسکتا ہے؟ اس بارے میں ڈپارٹمنٹ اف سائیکیٹری سندھ گورنمنٹ لیاری جنرل اسپتال سے تعلق رکھنے والے ماہر نفسیات ڈاکٹر یحییٰ عامر کا کہنا ہے کہ جہاں منشیات آسانی سے دستیاب ہو، اس معاشرے میں نشے کے برے اثرات ضرور سامنے آتے ہیں، نشے کی عادت اور بے روزگاری مل کر بھیانک صورت حال اختیار کرلیتی ہے، نشے کے عادی افراد کا احساس ختم ہوجاتا اور انہیں اپنے کسی فعل کے نتائج کا خوف نہیں رہتا، اس لیے ایسے افراد کو باآسانی جرائم کرنے پر مائل کیا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر یحییٰ عامر کا کہنا ہے کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ پولیس اور تمام متعلقہ ادارے سماج سے منشیات کے خاتمے کے لیے ٹھوس اور عملی اقدامات کریں، اس کے ساتھ نشے کے عادی افراد کی بحالی کے لیے زیادہ سے زیادہ بحالی مراکز کا قیام ناگزیر ہے، جو لوگ نشہ چھوڑ چکے، انہیں مستقل اس لعنت سے دُور رکھنے کے لیے روزگار اور دیگر صحت مند سرگرمیوں کا ہونا ضروری ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ نشے اور جرم کا خاتمہ ایک مسلسل جہاد کا متقاضی ہے، لیکن پولیس منشیات کے گیٹ وے کو بند کرنے میں ناکام نظر آتی ہے، شہروں اور دیہات میں منشیات فروش کوئی سیکڑوں کی تعداد میں نہیں، لیکن پھر بھی قابو نہیں آتے، حالیہ کارروائیوں میں بھی پولیس نے نشے کے عادی کارلفٹرز کو پکڑلیا، لیکن کیا ہی اچھا ہوتا کہ سندھ اور بلوچستان پولیس مربوط حکمت عملی بنا کر ان منشیات فروشوں کو بھی گرفتار کرلیتیں جو نشے کے عادی افراد کو ایک پڑیا ہیروئن اور چند روپوں کے عوض گاڑیاں چھیننے اور چوری کرنے پر مجبور کرتے تھے۔ یہ لعنت معاشرے کی جڑوں میں تیزی سے سمارہی ہے، اس لیے اس کی بیخ کنی کے لیے جو اقدامات ناگزیر ہیں، ان کا جامع اور انتہائی موثر ہونا بھی بنیادی شرط ہے، کیونکہ نیم دلی سے کیے گئے اور محض زبانی جمع خرچ سے نشے اور جرائم کے گٹھ جوڑ کو نہیں توڑا جاسکتا۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔