”کیا تیر ا بگڑتا جو نامرتا کوئی دن اور“ (منفرد فن کار عزیزنازاں)

پروفیسر شاہد کمال

فلمی اسٹائل کی قوالی کامنفرد نام عزیزنازاں جسے لوگ جھوم برابر جھوم شرابی۔ چڑھتا سورج۔ ہو نگاہِ کرم۔اے ہند کے والی۔ مستی میں آپیے جا اور ایسے ہی بہت سے معرکہ آرا ریکارڈ سے پہچانتے ہیں۔اپنے شعبے میں بے شمار نئی اختراعات کرنے والا یہ فن کار 8 اکتوبر 1992 کو صرف 54 سال کی عمر میں ہم سے رخصت ہوگیا۔ آج اُسے ہم سے بچھڑے 29 برس گزر گئے ہیں لیکن روز اُس کی سریلی آواز کہیں نہ کہیں ہمارے کانوں میں رس گھولتی ہے۔

عزیز نازاں ایک پیدائشی فن کار تھا جس نے اپنے شعبے میں بہت سے خاندانی لوگوں سے کہیں بڑھ کر نام پیدا کیا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ نام اُسے اُس کے کام کی بدولت حاصل ہوا، ورنہ صرف شہرت کے لیے علم یا فن کی کوئی شرط نہیں ہوتی ہے۔ ہمیں اپنے اطراف ایسے بہت سے مشہور لوگ نظر آتے ہیں جو فنی اعتبار سے صرف کے درجے سے بھی نیچے تھے۔ لیکن شہرت کی دیوی اُن پر مہربان رہی۔ جب کہ عزیز نازاں کا معاملہ سب سے جدا ہے۔ اُن کی کسی بھی مقبول یا غیرمقبول ریکارڈ پر غورکریں تو آپ کی سمجھ میں باآسانی یہ بات آجائے گی کہ یہ باقاعدہ ترتیب دی گئی دھنیں ہیں جنھیں بھرپور پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ اور یہی وہ وصف ہے جو نہ ان سے پہلے اور نہ ہی ان کے بعد دیکھنے میں آیا ہے۔

وجہ اُس کی یہ رہی کہ عزیزنازاں دنیاوی طور پر ایک موسیقار کی روح لے کر پیدا ہوئے تھے، جو اُن کے کام میں جھلکتی دکھائی دیتی ہے۔ دھن میں راگ کی پابندی، کلام کی مناسبت سے راگ کا انتخاب، طرز کی سجاوٹ اور سازوں کے استعمال سے لے کر ریکارڈنگ کے معیار تک وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا فن کار تھا۔ اپنی دُھنوں میں نئے نئے تجربات کرنا عزیز نازاں کا انفرادی وصف تھا۔ قوالی کو برصغیر میں سب سے پہلے مغربی سازوں سے آشنا کرنا اُنھی کا کارنامہ ہے کہ جب انھوں نے اپنا مشہور ریکارڈ ’مستی میں آ پیے جا‘ پیش کیا، یہ ریکارڈ مغربی سازوں سے مزین ایک بھرپور کاوش تھی جو آج بھی شائقین موسیقی میں قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔

ردھم کے استعمال میں عزیزنازاں خصوصی مہارت رکھتے تھے جس کا مظاہرہ اُن کے تمام ریکارڈز میں سنا جاسکتا ہے۔ اونچے سُروں میں اشعار کی ادائیگی اُن کی ایسی خوبی تھی جو انھیں قدرت کی طرف سے ودیعت ہوئی تھی، ورنہ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ اونچے سروں میں فن کار یاتو سُر پر گرفت کھودیتا ہے یا پھر گانے کا تاثر پھیکا پڑ جاتا ہے، لیکن عزیز نازاں کی گرفت مصرع کی بھرپورادائیگی، سُرکی سجاوٹ اور راگ کے تاثرپر کہیں بھی ڈھیلی نہیں پڑتی۔ وہ اپنے فن کے حوالے سے ایک مبتلا شخص تھا جو گانے بیٹھتا تو اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیتا۔ یہی وجہ تھی کہ اکثرسازندوں کو بھری محفل میں سرزنش کر بیٹھتا جو اکثرنازک مزاج لوگوں کو بھی ناگوار گزرتی۔ لیکن جو لوگ فن کار کی اندرونی کیفیت سے واقفیت رکھتے ہیں وہ اُن کی اس ادا سے لطف اندوز ہوتے اور جو لوگ فن کو اخلاقیات کی عینک لگا کر دیکھتے ہیں اُن کے لیے یہ انتہائی ناگوار فعل تھا۔

عزیز نازاں اندر سے ایک نرم خوشخص تھا جو فن کاروں کی قدر دانی میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھتا۔برصغیر کے کئی مقبول فن کار ایسے ہیں جن کا تعارف عزیزنازاں کے مرہون منت ہے لیکن وہ کبھی اس بات کا ذکر نہیں کرتے کہ اُن کے ابتدائی زمانے میں عزیزنازاں کی حوصلہ افزائی کا کیا کردار رہا ہے۔ بہرحال یہ اُن کا ظرف ہے، کام کرنے والا کام کرکے چلا گیا، اُن کے اعتراف کرنے یا نہ کرنے سے کیا ہوتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ برصغیر میں غزل ہو یا قوالی سب سے زیادہ دھنیں جس فن کار کی گئی جاتی ہیں وہ عزیزنازاں ہیں۔ لوگ اُن کی دھنیں گا کر مشہور ہوگئے لیکن نام ندارد چلو کوئی بات نہیں، وہ خود تو جانتے ہی ہیں۔

ہندوستانی فلم انڈسٹری جس انداز سے فن کار کو پرکھتی ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ عزیزنازاں نے اس شعبے میں بھی نہایت بھرپور انداز سے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ محمدرفیع، کشورکمار، آشابھوسلے جیسے بڑے فن کاروں کے ساتھ وہ جس اعتماد سے جلوہ گر ہوئے اُس کی داد اہل فن ہی دے سکتے ہیں۔ فیروز خان کی فلم قربانی کے تھیم سونگ کا صرف ایک شعر ’فرشتے کو نہیں ملتا‘ کون بھول سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ’ولیوں میں ولی مخدوم اللہ رے اللہ‘، ’یابابا مخدوم“ جیسے ریکار ڈ آج بھی برصغیر کی فضاؤں میں کھنکتے ہیں۔ محفل ہو یا ریکارڈنگ سُرسے ساز تک اور ساز سے اشعار کے انتخاب تک ہر جگہ عزیزنازاں اپنی پوری روح کے ساتھ موجود رہتے۔

اُن کی تانیں پنڈال ہلا دیا کرتیں۔گلے پر یہ گرفت اُن کے ہم عصروں میں کسی اور کے پاس دکھائی نہیں دی۔ اشعار کی ادائیگی کے معاملے میں بھی عزیزنازاں کا اپنا ایک مخصوص انداز تھا، ایک ایک مصرع کو تانوں اور بہلاؤں سے سجانا انھی کا وصف تھا۔ وہ مشکل ترین دھنوں کو بھی اسٹیج پر اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ اُسی بھرپور تاثر کے ساتھ پیش کردیا کرتے جسے انھوں نے اسٹوڈیومیں درجنوں سازندوں کے ساتھ ریکارڈ کیا ہوتا۔اس کی مثال مظفر وارثی کا ایک کلام ’صلی علیٰ‘ ہے جسے انھوں نے کئی مہینوں کی محنت کے بعد ریکارڈ کیا۔ اس کے بارے میں بہت کم لوگوں کو یہ بات معلوم ہے کہ انھوں نے یہ سارا کام اکیلے انجام دیا۔ یہاں تک کہ کورس بھی انھوں نے خود ہی پرفارم کیا کیوں کہ دُھن کی بُنت اس طرح کی گئی تھی کہ مصرع دُھرانے کے لیے گلے میں جس گنجائش اور وسعت کی ضرورت تھی وہ کورس والوں کو میسر نہیں تھا۔لہٰذا تاثر کا حق ادا کرنے کے لیے اس فن کار نے یہ کام بھی خود ہی کیا۔ اور ہر ہر لائن چار بار مختلف انداز سے ریکارڈ کرکے مکس کی گئی جو ان کی ریکارڈنگ کے حوالے سے تکنیکی مہارت کا ثبوت ہے۔ اس کے علاوہ عزیزنازاں کا ایک مشہور ریکارڈ ’اے ہند کے والی‘ وہ بھرپور دُھن نے جس میں راگ کی بندش اور ادائیگی کی ہم آہنگی سے وہ تاثر پیدا کیا گیا ہے جو کہیں اور دیکھنے میں نہیں آتا۔ ایک اور بات اُن کے شاعرانہ شعور کی موسیقی سے وہ ہم آہنگی ہے جو اللہ نے صرف انھی کو عطا کی تھی۔ اس کی مثال اُن کا وہ کام ہے جو شاعری کی صنف مستزاد کی کمپوزیشن ہے۔

وہ مستزاد بنانے میں کمال رکھتے تھے۔ جو ایک نہایت مشکل کام ہے۔اس حوالے سے اُن کے مشہور قوالی ’اے ہند کے والی‘ اور دوسرے ریکارڈ ہیں۔ہر چند کہ مستزاد گانے کے اعتبار سے ایک روکھی پھیکی چیز ہوتی ہے لیکن اُسے اپنے فن سے انتہائی عام فہم بنادینا عزیزنازاں کا ہی کمال تھا۔ طبیعتاً کیوں کہ وہ ایک فقیر منش شخص تھے اس لیے اُن کی دُھنیں چوری ہوتی رہیں۔اس تعلق سے بہت سے مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ فی الحال اس کا موقع نہیں ہے۔ آج ہم اس فن کار کو یاد کرنا چاہتے ہیں جو اپنی ۴۵سالہ زندگی میں وہ کام کرگیا جو لوگوں کو بڑی بڑی عمروں میں نصیب نہیں ہوتی۔اگرزندگی اُسے کچھ اور مہلت دیتی تو ہمیں اور بہت سے معیاری کام سُننے کو ملتا، لیکن جانے والے کی سیمابیت اسے اپنے ساتھ لے گئی۔اور اُس کے چاہنے والے یہی کہتے رہ گئے کہ:

”لوگ اچھے ہیں بہت دل میں اُترجاتے ہیں

ایک برائی ہے تو بس یہ ہے کہ مرجاتے ہیں“

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔