کرونا کی بڑھتی وبا اور عوام
کرونا وائرس نے دنیا بھر کی طرح اب پاکستان کو بھی مکمل طور پر اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، ایک مریض سے لیکر اب یہ تعداد سینکڑوں میں ہے۔ کرونا وائرس کے خدشات کے پیش نظر ملک بھر میں لاک ڈان ہے، عوام کو گھروں میں محدود رکھنے کے لئے سخت اقدامات بھی کئے جارہے ہیں۔ سڑکوں، شاہراہوں پر شام میں سناٹا رہتا ہے، شاپنگ، مالز، ریسٹو رنٹس اور شادی ہالز سب بند ہیں۔ لیکن تشویش کی بات یہ ہے کہ باوجود اس کے کرونا سے متاثرہ افراد کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہی ہوتا چلا جارہا ہے اور وفاقی حکومت ہو یا صوبائی۔حکومتیں سب کی حتی الامکان یہی کوشش ہے کے فی الفور اس وبا پر کنٹرول پایا جائے اور حالات بہتری کی جانب بڑھنے لگیں۔
لیکن سوال یہ ہے کہ اس گھمبیر صورتحال پر کنٹرول پانے کے لئے کیا کردار صرف حکومتی اداروں سیاسی ۔جماعتوں ڈاکٹرز قانون نافذ کرنے والے اداروں علما ء کرام یا ان سے منسلک دیگر لوگوں کو ہی ادا کرنا ہے آپ کیا سمجھتے ہیں اگر چہ یہ تمام اپنے فرائض بھرپور طریقے سے انجام دینگے توکیا اس وبا پر مکمل قا بو پالیا جائیگا؟ آپ کی عقل کیا کہتی ہے؟ یقینا آپ بھی وہی سوچ رہے ہیں جو میں کہنا چاہتی ہوں بات سمجھنے کی ہے اور عقل سے کام لینے کی کرونا وائیرس کس حد تک خطرناک ہے اور اسکے شکار مریض سےاسکا یہ وائرس کس تیزی کے ساتھ ایک شخص تو کیا اطراف میں موجود کئی لوگوں کو متاثر کرسکتا ہےاب تو یہ بات اب بچہ بچہ جان چکا ہے۔
ہر طرح کی آگاہی الیکٹرونک میڈیا، پرنٹ میڈیا، سوشل میڈیا ہو یا دیگر ادارے ہر طرح سے عوام کی رہنمائی کے لئے ہمہ وقت تیار ہیں اور اس سے کس طرح سے بچا جاسکتا ہے آپ بھی بخوب واقف ہیں آپ اور ہم جانتے تو بخوبی ہیں لیکن کیا حفاظتی اقدامات بھی بھرپور طریقےسے کر رہے ہیں؟ بالکل اسی طرح سے کہ جیسے ہونا چاہیئں ہرگز نہیں صورتحال بالکل مختلف ہے افسوس کے ساتھ کہنا پڑھ رہا ہے کہ ہماری عوام اس انتہائی خطرناک صورتحال کو بھی غیر سنجیدہ لے رہی ہے، ہر طرف سے بس یہی آواز سنائی دے رہی ہے کہ عوام کرونا سے نہیں بے روزگاری اور بھوک سے مر جائینگے۔
یہ بات کافی حد تک درست بھی ہے اور عوان کا غم و غصہ جائز بھی ہے کہ روزانہ کمانے والا مزدور طبقہ تو دو وقت کی روٹی سے بھی گیا یہاں حکومت کی کئی جگہ غفلت اور خاطر خواہ انتظامات کا نہ ہونا شامل ہے غریب عوام کی داد رسی اور کم سے کم دو وقت کی روٹی ریاست کی ذمہ داری ہے اور اس صورتحال کے پیش نظر یہ اقدامات کرنا اور مربوط انتظام اور غریبوں تک اشیاء خورنوش کی فراہمی کے طریقہ کار کو یقینی بنانا ضروری تھا اور لاک ڈاون سے پہلے اسکی فراہمی ہوجانی چاہئے تھی۔ خیر دیر آئے درست آئے حکومت کی جانب سے اعلانات تو شروع کردئیے گئے ہیں لیکن اسکی اور کئی حکومتی اداروں کی جانب سے فنڈنگ بھی کی گئی اور مخیر حضرات بھی اس کار خیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں کسی حد تک تو غریبوں کی مدد ہو سکے گی لیکن سوال تو یہ بھی ہے کہ محض پاکستان میں کھانا کھاکر تو عوام زندہ نہیں رہ سکتے۔ دہاڑی دار طبقہ ہو یا پرائوٹ نوکری کرنے والا اسے تو بلوں کی ادائیگی تو کرنی ہی ہوگی اور اگر گھر ہے کرائےکا تو سونے پر سہاگہ لیکن یہ تو اسوقت۔سوچا جا ئے حکومت نے مکمل لاک ڈاون ایک لمبے عرصے تک کیا ہوتا۔
اس ہنگامی صورتحال میں کیا جانے والا چند کا لاک ڈاون عوام کی بہتری کے لئے تھا اور اس میں تو عوام کو بھرپور کردار ادا کرنا چاہئے تھا خود سے آئسولیٹ ہوجانا چاہئے تھا لاک ڈاون کے باوجود جس طرح سے عوام دندناتے سڑکوں پر موجود نظر آتے ہیں، جس پر پولیس کو وہ اپنی تواضع کرنے پر مجبور کرتے ہیں کیا اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عوام کتنی سنجیدہ ہے۔ خدا نخواستہ اگر ان میں سے کوئی بھی اس وائرس سے متاثرہ ہےپھر یہ تو چلتے پھرتے ایٹم بم ہیں اس صورتحال پر یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ ہماری عوام سنجیدہ ہو یا نہ ہو جذباتی ضرور ہیں۔ خدا را احتیاط کیجئے اپنی اور دوسروں کی زندگی سے نہ کھیلیں کچھ دن گھر میں رہیں اور اس پروردگار سے لو لگائیں، اس کے آگے سجدہ ریز ہوکر اس عذاب سے پناہ مانگیں یقینا وہ اس وبا سے نجات ضرور دیگا۔