بھیک مانگتا مستقبل

یاور عباس

ہر روز ہمارے ملک میں سنہرے خوابوں کی موت ہوتی ہے، روز کئی زندگیوں کا سودا ہوتا ہے، ہر روز روشن مستقبل سیاہ رنگ مول لیتا ہے، ہر روز ایک ماں اپنے لخت جگر کو کھو بیٹھتی ہے، ہر روز قانون کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔

یہ کہانی کسی افسانے یا ڈرامے کی نہیں بلکہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کی ہے، جہاں معصوم بچے پیدا ہونے کے بعد ہی گداگری جیسی شرم ناک اور ہولناک عادت میں ملوث ہوجاتے ہیں اور گداگری کے اس ہولناک اور سفاک لپیٹے میں اکثریت بچوں کی ہے۔ یہ وہ بچے ہیں جنہیں اغواء کیا جاتا ہے اور ان اغوا شدہ بچوں کو نشے اور ادویات کا عادی بنادیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنی یادداشت بھول جائیں۔ اس کے علاوہ بچوں کو معذور بھی کردیا جاتا ہے تاکہ وہ باآسانی بھیک مانگ سکیں اور معذوری کے سبب لوگ ان بچوں پر ترس کھاکر انہیں کچھ نہ کچھ دے دیں۔

کراچی کی مشہور مارکیٹس، یونیورسٹیوں کے باہر، سگنلز پر، چنگ چی رکشے کے اڈوں اور بس اسٹاپوں پر ان بچوں کی کثیر تعداد آرام سے دیکھی جاسکتی ہے۔ یہ بچے جو ہمیں بھکاری بن کر ملتے ہیں ان میں اکثر ضرورتاً اور انکی اکثریت مجبوراً بھیک مانگنے پر مجبور ہوتی ہے۔ کیونکہ یہ یرغمال ہوتے ہیں کچھ درندہ صفت لوگوں کے جو خود تو کچھ نہیں مگر بچوں کو کبھی اغوا تو کبھی تشدد کرکے زبردستی بھیک مانگنے پر مجبور کردیتے ہیں اس طرح یہ بھیک مانگتے معاشرے کے دھتکارے ہوئے ننھے فرشتے گداگری جیسا گھناؤنا کام کرکے اپنی سوچ اور ذہن کو غلط سمت لے جاتے ہیں اور پھر انہیں سوچوں کے ساتھ بڑے ہوکر بیشتر جرائم میں ملوث ہوجاتے ہیں اور معاشرے کو ایسے ایسے جرائم میں ملوث کرتے ہیں کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔
یہ نہایت ہی افسوس اور شرم کی بات ہے کہ جس امت کے پیغمبرنے تعلیم دی ہو کہ دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہے اور گداگری کے لیے وہی امت مشہور ہوجائے۔ ہمارے مذہب نے ہمیں کبھی گداگری اور کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی تعلیم نہیں دی۔ بہت سے صحابہ کرام جو بہت غربت کی زندگی گزاررہے تھے انھوں نے کبھی کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلایا بلکہ محنت مزدوری کرکے حلال رزق کمایا اور اپنی ضروریات پوری کیں۔
ایک تحقیق کے مطابق کراچی میں ہر سال 3000 سے زائد بچے اغوا ہوتے ہیں۔ اغوا کرنے والوں میں گداگر مافیا کا نام سرفہرست ہے۔ یہ مافیا بچوں کو نہ صرف اغوا کرتے ہیں بلکہ کچھ پیسوں کی خاطر ان بچوں کے جسموں کو زخموں سے بھر دیتے ہیں۔ انسانی جذبات سے کھیلنے والا یہ گروہ قانون کو سربازار پامال کرتا ہے، لیکن کسی ادارے کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔

اقوام متحدہ کی ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں غربت کی شرح بدستور بڑھتی جارہی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہمیں گداگر اور بھکاری بچے جابجا نظرآتے ہیں۔
پاکستان کے قانون کے مطابق بھیک مانگنا جرم ہے لیکن اس قانون کی ہر گلی کوچے میں خلاف ورزی دیکھ کر یہ بات تو صاف ظاہر ہے کہ اس قانون کی حیثیت صرف قانونی کتابوں تک محدود ہے۔ حکومت اور سرکاری ادارے اغوا شدہ بچوں کی بحالی کے لیے اقدامات کرنا تو دور کی بات ہے، بات کرنا بھی گوارا نہیں کرتے۔
حکومت کو فوری طور پر اور ایمرجنسی بنیادوں پر یہ حکم جاری کرنا چاہئے کہ کسی کو بھی یہ اجازت نہیں ہوگی کہ وہ بچوں سے یا بچوں کو ساتھ لے کر بھیک مانگے اور اس کی خلاف ورزی پر ان کو قانون کے مطابق سزا دی جائے۔ اس کے علاوہ گورنمنٹ کو روزگار کے مواقع بھی زیادہ سے زیادہ پیدا کرنے چاہئیں تاکہ کوئی بھی غربت کے پیش نظر غلط راستے اختیار نہ کرے۔
ساتھ ساتھ ملک میں ایسے بچوں کے لیے ایسے سینٹرز بنائے جائیں جہاں ان کو رہائش کے ساتھ کھانا پینا اور اچھی تعلیم و تربیت بھی مہیا کی جائے اور ان بچوں کا ایسا مائنڈ سیٹ بنایا جائے کہ ان سینٹرز سے نکلنے کے بعد یہ بچے اپنے والدین کے پاس واپس جانے کے بعد رزق حلال کمائیں اور تعلیم کو اپنا شعار بنائیں۔ اس طرح کے پروجیکٹس سے گداگری کا جڑ سے خاتمہ ممکن ہے کیونکہ جب تمام بھکاری بچے تعلیم حاصل کریں گے اور پڑھنے پڑھانے کے ماحول سے وابستہ ہوجائیں گے تو ملک سے گداگری کا خاتمہ ہوگا اور ہمارا ملک بھی ترقی کی منزلوں پر گامزن ہوجائے گا۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔