ڈھشما: بہ یک وقت متنفر اور معترف کرنے والی دل چسپ کتاب
تجربہ اس کتاب کی اساس ہے، اور فلسفیانہ مزاح وہ ستون، جن پر یہ عمارت کھڑی ہے۔
بہ یک وقت منتشر اور منظم، ہم آہنگ اور بے ہنگم ، پرلطف اور پر پیچ۔ ایک زاویے سے ڈراما، دوسرے سے نوویلا۔
ورجینا ولف نے کہا تھا کہ ناول میں دنیا کا ہر موضوع سمویا جاسکتا ہے۔ اردو میں چند ناولز نے یہ بات کو سچ کر دکھانے کی سعی کی، "ڈھشما” کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے جو نیئر مصطفیٰ کے قلم سے نکلا ہے۔ اردو کی رائج جمالیات سے متصادم۔ (راقم کے لیے تو یہ ناول ہی ہے، آپ صاحبان جو نام دینا چاہییں، دے سکتے ہیں)
قاری کو بہ یک وقت معترف اور متنفر کرنے والی کتاب ہے، جس نے کم از کم ہمارے لیے تو فہیم اعظمی کے انوکھے تجربے، جنم کنڈلی کی دل پذیر یاد تازہ کر دی۔ (اس سلسلے میں انور سجاد کے خوشیوں کا باغ اور انیس ناگی کے ناول دیوار کے پیچھے کو بھی شامل کرلیجیے)
اچھی خبر یہ ہے کہ اردو ادب میں نوجوان نئی فکر کے ساتھ نمودار ہو رہے ہیں۔ ابھی ان کی فکر ہل چل مچانے کے مرحلے میں ہے، قبولیت کا موضوع بعد میں زیر بحث آئے گا۔
اچھا، اب ذرا اس کتاب کے پلاٹ اور کرداروں پر نظر ڈال لیں۔ یہ ناول ہماری سیاسی و فکری تاریخ کے اہم کرداروں کے مکالمے کو منظر کرتا ہے۔
اٹلی سے انٹونیو گرامچی چلا آتا ہے، فرانس کے والٹیئر، سیمون دابوار اور رولاں بارتھ بھی آپ کو یہاں ملیں گے، فلسطین کے ایڈورڈ سعید کی گفت گو سنیں۔ نروان کے متلاشی بدھ اور ہٹلر سے بھی مل لیجیے، عہد حاضر کے دو فاشسٹ، مودی اور ٹرمپ بھی کہانی میں در اتے ہیں۔
یہ سارا کھیل امریکا کے سیاسی فلسفی، سیموئیل ہنٹنگٹن نے رچایا ہے، ”تہذیبوں کا تصادم“ کی تھیوری پیش کرنے والے یہ صاحب ہی اس اکٹھ کا سبب۔
ان صاحب یعنی سیموئیل ہنٹنگٹن نے فلم ”ڈھشما“ بنائی ہے، یہ سارے فلسفی، دانش ور، قلم کار اس کے پریمیئر میں شریک ہوئے ہیں۔ (یہی سے کتاب کو عنوان ملا ہے)
تو ان بزرگوں کے اکٹھ نے ایک پرلطف کیفیت پیدا کردی، ساتھ ہی یہ مصنف کی فلسفے میں دل چسپی اور گرفت کو بھی ظاہر کرتی ہے۔
کتاب پر سید کاشف رضا کی رائے درج ہے، جو لکھتے ہیں: لسانی اختراع اور خلّاقی بھی اس ناولٹ کی اہم خصوصیت ہے۔ مصنف نے اردو کے ساتھ خوب کھُل کھیلا ہے، اور جہاں تہاں پنجابی اور انگریزی کے ساتھ ساتھ نریندر مودی کے کردارکے لیے ہندی کے الفاظ بھی آزادی اور ذہانت سے استعمال کیے ہیں۔ اس سے مختلف کرداروں کی نقالی اور بھی عمدہ طریقے سے ممکن ہوئی ہے۔
یہ ایک دل چسپ تجربہ ہے، جو خاص نوع کے قاری کو، یا اس قاری کو، جو اس میں موجود کرداروں کو تھوڑا بہت جانتا ہو، محظوظ و مسرور کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس موضوع کو فکشن کرنے کی وجہ پر سوال کیا جاسکتا ہے، البتہ اس میں دھمکتے لطف سے انکار ممکن نہیں۔
دنیا کو ایک نئے ڈھب پر دیکھنے کے لیے شکریہ نیئر مصطفیٰ۔ جیو دوست، ہمیں تمھاری ہی ضرورت ہے۔