چڑیا

علی عبداللہ

تو یہ چڑیا تھی! مٹیالے رنگ کی ایک ننھی اور نازک سی چڑیا جو میرے قریب بیٹھی مجھے دیکھتی رہی اور پھر اچانک خوف زدہ ہو کر اڑ گئی- عرصہ ہوا ان چڑیوں کو دیکھے ہوئے، کیونکہ اب انسانی ترقی اور دن بدن سہولت کی خاطر ایجاد کیے جانے والے مختلف آلات نے قدرت کے کارخانے میں بڑی ہلچل مچائی رکھی ہے- یہی چڑیاں جو کبھی جگہ جگہ گھونسلہ بناتی، بچوں کو کھلاتی اور مترنم آواز میں تسبیح کرتی دکھائی دیتی تھیں، اب انھیں دیکھنے کو آنکھیں ترس جاتی ہیں- یہی وجہ تھی کہ آج صبح سویرے جب میں نے اس چڑیا کو دیکھا تو وہیں ساکت ہو گیا اور اسے یوں دیکھنے لگا جیسے کوئی ہجر کا مارا دیدار نصیب ہونے پر ہکا بکا بس صورت یار ہی دیکھتا رہ جائے- پرندے سب ہی خوبصورت اور قدرت خداوندی کا ایک بہترین مظہر ہیں، لیکن مجھے چڑیا اور ہدہد جہاں دکھائی دیتے ہیں میں وہیں مسحور ہو کر زمانوں کی سیر کو چل پڑتا ہوں- یہ دونوں مجھے عجیب احساسات اور خیالات عطا کرتے ہیں، جو میری روح کو جا چھوتے ہیں-

چڑیا کو ہی لیجیے، میں نے اسے دیکھا تو یوں محسوس ہوا جیسے یہ مجھے طاقت، سادگی، ہمت، دوستی اور مستقل مزاجی کا پیغام دے رہی ہو- کمزور سی یہ چڑیا سارا دن پھدکتی ہے اور چہچہاتے ہوئے پیغام دیتی ہے کہ محنت کش ہونے کے ساتھ ساتھ خود سے محبت کرنا اور ارگرد کا احساس کرنا بھی لازمی ہے- یقیناً اس چڑیا نے بھی یہ داستان اپنے کسی بزرگ سے سنی ہو گی کہ صدیوں پہلے ایک چرواہا ذکر خدا کرتے کرتے ایک جگہ رکا تو اس نے مٹی کا ایک پرندہ بنا کر "قم باذن اللہ” کہا اور وہ مٹی کی مورت محو پرواز ہو گئی- لیکن کچھ بتاتے ہیں کہ مسیح ابن مریم نے مٹی سے گیارہ چڑیاں بنا کر قم باذن اللہ کہا تھا- یہی وجہ ہے کہ مٹیالا رنگ اور عاجزی صدیوں سے چڑیا کے خاندان میں چلی آ رہی ہے- چڑیا قوت ارادی اور حقیقی خواہشات کی علامت ہے- یہ کم خوراک پر مطمئین رہتی ہے اور ضائع کچھ نہیں کرتی- اسی لیے ہی یہ مجھے مادی اشیاء اور انسانی خواہشات کے برعکس مجھے میری روح میں جھانکنے پر مجبور کرتی ہے اور بتاتی ہے کہ مادی خواہشات کو کم اور ضروریات کو محدود کرنا ہی اطمینان اور راحت کا سبب ہے-

چڑیا اب مجھے دلچسپی سے دیکھ رہی تھی جیسے کہتی ہو کہ مزید باتیں کرو- میں نے اسے بتایا کہ یونانی چڑیا کو محبت کی علامت سمجھا کرتے تھے کیونکہ چڑیا محبت کی دیوی کے پاس رہا کرتی تھی- مزید میں نے بتایا کہ قدیم مصری لوگ سمجھتے تھے کہ چڑیا وفات پانے والے لوگوں کی روحوں کو پکڑتی ہے اور انھیں جنت میں لے جاتی ہے- اسی لیے سالوں بعد یہ سمندری ملاحوں کی اعتقادی علامت بن گئی- یوں ملاح اپنے بازوؤں پر چڑیا کا نقش کھدواتے، تاکہ اگر انھیں سمندر میں موت آئے تو ان کی روح کو یہ چڑیا پکڑ سکے-
انجیل نے اسی چڑیا کو مثال بناتے ہوئے کہا،
” Are not two sparrows sold for a copper coin? And not one of them falls to the ground apart from your father’s will”
اس کی تشریح سننے کا چڑیا کے پاس وقت نہ تھا ہاں میں نے اسے مختصراً کہا کہ یہ تمثیل دراصل اس دور کے لوگوں کے لیے تھی جب وہ مظالم کا شکار تھے- اس کا مفہوم یہ تھا کہ ایک حقیر سی چڑیا بھی اگر خدا کے علم کے بغیر نہیں ماری جاتی تو جان لینا چاہیے کہ خدا باقی ان سب کو بھی جانتا ہے جو اس نے تخلیق کیا ہے- یعنی اگر حقیر سی چڑیا کی بھی خدا فکر کرتا ہے تو پھر وہ اپنے نیک بندوں پر اس سے زیادہ کرم کرتا ہے-

گفتگو کے دوران چڑیا کو میری بات اس وقت ناگوار گزری جب میں نے اسے بتایا کہ مشہور لکھیکھ اور افسانہ نگار چاسر و شیکسپئیر تمہارے بارے اچھے الفاظ نہیں لکھتا اور کہتا ہے،
"Lecherous as a sparrow”
جبکہ مؤخر الذکر بولتا ہے کہ،
"sparrows must not build in his house eaves, because they are lecherous”
یہ سن کر چڑیا تلخ انداز میں پوچھنے لگی کہ کیا تم بھی یہی سمجھتے ہو؟ میں نے کہا میں تو تمہیں معصوم اور قدرت کی ایک حسین صناعی سمجھتا ہوں جسے روح اللہ کی پھونک نے جلا بخشا- چڑیا اس جواب سے بظاہر مطمئین ہوئی اور کہنے لگی ہدہد کیوں تمہیں پسند، جبکہ اس کی چونچ تو دیکھو کیسی بدصورت دکھائی دیتی ہے مجھے- ہدہد کا نام سنتے ہی مجھے سلیمان علیہ السلام کی بات یاد آ گئی،
"وتفقد الطیر فقال مالی لا اری الھدھد ام کان من الغائبین” کتنی اہمیت تھی اس کی؟ بس یہی کافی ہے کہ وہ عظیم سلیمان علیہ السلام کا ایلچی اور سفیر تھا- اور سفیر ہونے کے لیے علم و دانش بہرحال لازم ہوا کرتی ہے- یہاں سے اچانک مجھے عطار کی منطق الطیر یاد آ گئی کہ جس میں خود کی تلاش میں نکلنے والے پرندوں کا امیر ہدہد ٹھہرتا ہے جو ان کو تصوف کی سات پرخطر وادیاں پار کرواتا ہے- راہ کی مشکلات سے گھبرا کر واپس لوٹنے والوں کو ہدہد کے مدلل اور منطقی جوابات انھیں یہ وادیاں کامیابی سے عبور کرواتے ہیں-
چڑیا جو غور سے مجھے سن رہی تھی، بولی پرندوں کی بولیاں بے جا نہیں ہوتیں، نہ ہی یہ صرف ترنم کے لیے ہوتیں، بلکہ ان کی بولیاں، حقیقت کے متلاشیوں کو حقیقت کے جانب اہم اشاروں سے روشناس کرواتی ہیں-

لیکن جب میں نے اسے بتایا کہ فارس کے قدیم لوک قصوں میں مذکور ہے کہ ہدہد دراصل ایک شادی شدہ خاتون ہوا کرتی تھی، جس پر ایک روز برہنہ حالت میں کنگھی کرتے ہوئے اچانک اس کے والد کی نظر پڑ گئی تو وہ شرمندگی کی وجہ سے بالوں میں کنگھی سمیٹ کہیں اڑ کر چلی گئی اور آج بھی ہدہد کے سر پر کنگرہ نما کلغی اس واقعے کی جانب اشارہ کرتی ہے- یہ سن کر چڑیا ایک دم خوف زدہ ہوئی اور چلا کر بولی تم انسان نجانے ہر شے میں ہوس کا شکار کیوں ہو جاتے ہو- اب یہ میری ہوس تھی یا قصہ گو کی یا پھر یہی حقیقت تھی، مجھے معلوم نہیں مگر چڑیا ہر انسان کو ہوس زدہ سمجھ بیٹھی اور میری وضاحت سے پہلے ہی وہ اڑی اور فضا میں کہیں غائب ہو گئی-

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔