خصوصی افراد، معاشرے کا قابل قدر حصّہ!
محمد راحیل وارثی
دوران سفر سگنل پر ایسے شخص نے بھیک طلب کی جو ہاتھ پیر سلامت ہونے کے ساتھ دماغی طور پر بھی بہتر معلوم ہوتا تھا۔ میں اُسے نظرانداز کرتے ہوئے سگنل کھلنے کا منتظر تھا کہ اُس نے دوبارہ تقاضا کیا۔ اس بار اُسے نصیحت کرنے کی سعی لاحاصل کر ہی ڈالی کہ ’’ہاتھ پیر سلامت ہیں، دماغ بھی درست کام کررہا ہے، کیوں بھیک طلب کرتے ہو، محنت مزدوری کرو اور رزق حلال کمائو۔‘‘ وہ اس پر یہ کہتا ہوا آگے بڑھ گیا کہ ’’صاحب بھیک دینی ہے تو دو، بھاشن مت دو۔‘‘ میں اُسے دیکھتا ہی رہ گیا۔ سگنل کھلا اور گاڑیاں رواں دواں ہوگئیں۔ ملک کے بڑے شہروں میں ہر سُو ایسے پیشہ گداگروں کا راج دِکھائی دیتا ہے جو شہریوں کا جینا دوبھر کردیتے ہیں۔
خیر اگلے روز دوران سفر ایک مصروف سڑک کے کنارے خصوصی افراد کی موٹر سائیکل (جو تین پہیوں پر مشتمل ہوتی ہے) پر ایک ’’خصوصی فرد‘‘ جرابیں، رومال وغیرہ فروخت کرتا نظر آیا۔ یہ لمحہ انتہائی خوش گوار لگا اور دل سے آواز آئی کہ اس سے خریداری لازمی کرنی چاہیے۔ وہ خصوصی فرد ہر لحاظ سے سراہے جانے کے قابل ہے کہ اپنی معذوری کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ناصرف رزق حلال کمارہا بلکہ اپنے اہل خانہ کا پیٹ بھی پال رہا اور اس فاسٹ فارورڈ سماج کے مطابق زندگی بھی گزار رہا ہے۔ بلاشبہ ایسے خصوصی افراد نکمے گداگروں کے لیے عظیم مثال ہیں، اگر ان پر توجہ دی جائے تو یہ سماج کے لیے مفید ثابت ہوسکتے ہیں۔ یہ انتہائی قابل ذہن کے حامل ہوتے ہیں۔ ان کی سوچیں اتنی زیادہ گہری ہوتی ہیں کہ نارمل فرد اُس تک پہنچ ہی نہیں سکتا۔
وطن عزیز کے طول و عرض کا جائزہ لیا جائے تو خصوصی افراد کے حوالے سے یہاں حالات انتہائی مایوس کُن دِکھائی دیتے ہیں۔ دُکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ یہاں خصوصی افراد کو بے پناہ مسائل درپیش ہیں، معاشرے سے ان کو مدد مل رہی ہے اور نہ حکومتی سطح پر ان کے مصائب میں کمی کی خاطر اقدامات ممکن بنائے جارہے ہیں۔ حالانکہ پاکستان کا شمار دنیا میں سب سے زیادہ خصوصی افراد کے حامل ملکوں میں ہوتا ہے، جہاں اس وقت ڈیڑھ کروڑ سے زائد خصوصی لوگ ہیں اور مسلسل اس طبقے کی تعداد اور مسائل میں خطرناک حد تک اضافہ ہورہا ہے۔ ویسے تو خصوصی افراد کے مسائل بے شمار ہیں، لیکن بڑا مسئلہ معاشرے کا انہیں اپنے اندر جذب نہ کرنا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں ہر شخص دوسرے سے آگے بڑھنے اور زیادہ سے زیادہ سرمایہ اکٹھا کرنے کے شیطانی چکر میں مصروف ہے۔ ایسے میں خصوصی افراد اپنی جسمانی کمزوری کے باعث معیشت سے اپنا حِصہ وصول کرنے میں ناکام رہتے ہیں، کیونکہ انہیں اس کے اتنے مواقع میسر نہیں ہوتے جتنے ایک نارمل فرد کو دستیاب ہوسکتے ہیں۔ چنانچہ یہی وہ بڑا سبب ہے جو معذوروں کے متعلق مجموعی معاشرتی شعور کو متاثر کرتے ہوئے انہیں ناکارہ اور عضؤ معطل سمجھنے پر مجبور کرتا ہے، جس کا آغاز اس کے اپنے گھر سے ہی ہوتا ہے، خصوصی فرد کے اہل خانہ ہی اس سے منہ موڑ لیتے ہیں کہ جب گھر کا ہر فرد ’’نوٹ چھاپنے والی مشین‘‘ بنا ہوتا ہے، ایسے میں یہ بے چارہ انہیں ’’بوجھ‘‘ نظر آنے لگتا ہے۔ حالانکہ اگر اسے معاشرے سے علیحدہ رکھنے کے بجائے اُس کا حصّہ بنانے پر توجہ مرکوز کی جائے، اُس کی حوصلہ افزائی کی جائے تو یہ نارمل لوگوں سے زیادہ محنت کرکے اُن سے کہیں زیادہ کماکے تن تنہا گھر کا معاشی بوجھ ڈھو سکتا ہے۔
افسوس خصوصی افراد کے ساتھ معاشرتی رویہ ہرگز اچھا نہیں کہ بعض لوگ انہیں برے القاب سے پکارتے نظر آتے ہیں تو بعض ایسے بھی ’’روشن دماغ‘‘ ہیں جو انہیں دیکھ کر اپنے کانوں کو ہاتھ لگاکر رب تعالیٰ سے معافی مانگتے دِکھائی دیتے ہیں کہ جس ’’سزا‘‘ میں یہ مبتلا ہیں، خدا اِس سے ہمیں بچائے۔ آج تک کسی بھی حکومت نے خصوصی افراد کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانا تو درکنار اُن سے متعلق معاشرے میں موجود غلط فہمیوں اور غیر مناسب رویوں کے خاتمے کے لیے بھی کوئی اقدامات نہیں کیے۔ یہاں ہمیں اپنے میڈیا سے بھی شکایت ہے کہ اس کی جانب سے خصوصی افراد کے مسائل پر انتہائی کم کوریج نظر آتی ہے، انہی وجوہ کے پیش نظر عوام کو خصوصی افراد کے مسائل سے آگاہی ہوتی ہے اور نہ ان کے متعلق اپنی معاشرتی ذمے داریوں کے حوالے سے فکرمندی پیدا ہوتی ہے۔
ازحد ضروری ہے کہ حکومت ناصرف خصوصی افراد کے لیے مناسب قانون سازی کرے، بلکہ ان کے حقوق کی آگاہی کی خاطر مختلف علاقوں میں اسپیشل پرسنز کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے ساتھ مِل کر کنونشنز اور تقاریب کا انعقاد کرے، تاکہ خصوصی افراد میں ناصرف اپنے حقوق کے لیے احساس و شعور اجاگر ہوسکے بلکہ حکومت کو بھی اس گمبھیر معاملے کی حساسیت کا اندازہ ہوسکے۔ خصوصی افراد کی زیست مشکل ضرور ہے، لیکن اُنہیں ہرگز تنہائی اور احساسِ کم تری کا شکار نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس پر فخر کرنا چاہیے کہ رب العزت نے انہیں اِمتحان کے لیے منتخب کیا ہے۔ عوام النّاس کی جانب سے خصوصی افراد کو مجبور و ناکارہ سمجھتے ہوئے ان کی تضحیک کی روش ترک کرنے کی ضرورت ہے۔ قرآن و حدیث میں ان کے لیے درجنوں مقامات پر بشارتیں وارد ہوئی ہیں اور ویسے بھی خصوصی افراد صلاحیتوں میں کسی سے کم نہیں۔ اگر ان کی مناسب حوصلہ افزائی کی جائے اور انہیں مواقع فراہم کیے جائیں تو یہ دنیا کے لیے بیش بہا اور گراں قدر کارنامے سرانجام دے سکتے ہیں۔ سب سے زیادہ ذمے داری والدین اور دیگر اہل خانہ پر عائد ہوتی ہے۔ ’’خصوصی فرد‘‘ کی پیدائش پر غم منانے کے بجائے سفرِ زیست کی ابتدا میں اُس کا مضبوط سہارا بنیں، اُسے بوجھ ہرگز تصور نہ کریں، اُسے لازمی علم کی روشنی مہیا کرنے کا بندوبست کریں، ہر موقع پر اُس کی حوصلہ افزائی کریں، اُس کو اعتماد کی دولت سے سرفراز کریں، معاشرے کا کارآمد شہری بننے میں اُس کی ہر ممکن مدد کریں۔ اس کا نتیجہ یقیناً آنے والے وقتوں میں خصوصی فرد کی خوش گوار زندگی کی صورت برآمد ہوگا۔