کیا ہم تیار ہیں؟
ٓکورونا بحران کے بعد پاکستان بھر میں تعلیمی ادارے کھولنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم اِس کے لیے تیار ہیں؟
ایس او پیز کی اصطلاح سننے میں بھلی معلوم ہوتی ہے، لیکن اصول و ضوابط کو فالو کرنا شاید ہمارے مزاج میں نہیں۔ ہم اپنے عزیز کو دیکھتے ہی فرط جذبات سے مغلوب ہو کر اس سے گلے ملنے پر یقین رکھتے ہیں۔اور ایسے میں کسے ایس او پیز یاد رہتی ہیں۔ ہم اب تک وبائی صورت حال میں اجتماع کے نقصانات سے نا آشنا ہیں اور سماجی سرگرمیوں میں اجتماع پر مصر ہیں۔ چاہے سماجی تقریب ہو، گھریلو یا مذہبی۔ ہم نے سوچ لیا ہے کہ جو رات قبر میں آنی ہے، وہ باہر نہیں آسکتی۔ اس کلیے کو بنیاد بنا کر نہ تو خود احتیاط کرتے ہیں، نہ ہی دوسروں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
ارباب اختیار کیا فیصلہ کریں گے۔پہلے ہی اندازہ تھا کہ پرائیویٹ اسکولز کی تنظیم کا دباؤ آج نہیں تو کل، اُنھیں اسکول کھولنے پر مجبور کر دے گا۔ اور ایسا ہی ہوا۔
مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے تیاری کر رکھی ہے؟ کیا ہم نے یہ نہیں سوچ لیا کہ یہ وبا ختم ہوگئی ہے، کورونا چلا گیا ہے، اب یہ واپس نہیں آئے گا۔مگر کیا یہی سوچ ہے؟ یہ ہماری خوش فہمی تو نہیں۔ دنیا بھر میں یہ رجحان دیکھا گیا ہے کہ کورونا نے پلٹ کر وار کیا، اِسی وجہ سے ترقی یافتہ ممالک میں اب بھی ایس او پیز پر سختی سے عمل کیا جارہا ہے۔
البتہ ہمارے ہاں صور ت حال مختلف ہے۔ ہم لاک ڈاؤن کے خاتمے کو کورونا کا خاتمہ سمجھ کر اپنی پرانی سرگرمیوں کی سمت جانے میں خوشی محسوس کر رہے ہیں۔ احتیاط کا دامن چھوڑنا اِن حالات میں کسی طورپر دانائی نہیں۔
بطورمسلمان ہم ہر مشکل کو خدا کی آزمائش قرار دے کر یہ یقین کر بیٹھتے ہیں کہ اب وہی اِس کا سدباب کرے گا۔ لیکن کیا یہ سوچ مثبت ہے؟ کیا ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنے سے ہم قانون فطرت کی نفی تو نہیں کر رہے، جس میں عمل اور جدوجہد کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔
ٓاحتیاط کا دامن چھوڑنا اور صورت حال سے نظریں چرا لینا اس مسئلے کا حل نہیں۔ حل یہ ہے کہ ہم لاک ڈاؤن کے خاتمے کے باوجود یہ خیال رکھیں کہ یہ مرض اب بھی موجود ہے اور ہمیں احتیاط کا دامن تھامے رکھے اس سے مقابلہ کرنا ہے۔
اگر ہم احتیاط کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں، صرف تب ہی ہم اعتماد کے ساتھ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہاں ہم تیار ہیں!