بلدیہ فیکٹری اور موت سی خاموشی
کیا آپ 11 ستمبر 2012 کو سول اسپتال کے مردہ خانے میں موجود تھے؟
اگر اس کا جواب نہیں میں ہے، تو شاید آپ اُن 300 خاندانوں کے کرب کو کبھی نہ سمجھ سکیں، جو گزشتہ آٹھ برس سے ایک عفریت کے گرفت میں ہیں۔
اگر آپ اُس روز اُس مردہ خانے میں نہیں تھے، جس کی فضا غم سے بوجھل تھی، جہاں جھلسے ہوئے جسموں کی بو اور سسکیاں تھیں، تو آپ واقعی نہیں سمجھ سکتے کہ بلدیہ فیکٹری میں جان بحق ہونے والے افراد کے لواحقین کو کن مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔
کیا گزری ہوگی اس ماں پر، جس کی نظریں گزشتہ آٹھ برس سے گھر کی دہلیز پر بیٹے کی آمد کی منتظر ہیں؟ اس بوڑھے باپ کے بارے میں سوچیں، جس کے شانے بیٹے کے جنازے کو کاندھے دینے کے بعد مزید جھک گئے۔ اُس بیوہ کا کیا حال ہوگا، جو شوہر کے جھلس جانے کے بعد اپنے بچوں کی کفالت کے لیے اس تپتے ہوئے معاشرے میں روز جھلستی ہے۔
سانحہ بلدیہ میں شہید ہونے والوں کے ساتھ جانے اور کتنے لوگوں مرے گئے۔ اور ان کی موت، ایک مسلسل کرب ہے کہ اب وہ انصاف کے انتظار میں لاغر ہوتے جارہے ہیں۔
المیہ دیکھیں، پاکستانی تاریخ کے سنگین ترین جرم کی تحقیقات میں اس قدر تاخیر ہوئی کہ لواحقین نے ایک وقت پر انصاف کی امید ہی چھوڑ دی تھی۔سانحہ بلدیہ کے پانچ برس بعد بھی مرنے والوں کے خاندان ٹرائل شروع ہونے کے منتظر تھے۔ تین دفعہ تحقیقات ہوئیں، مگر ہر کوشش لاحاصل رہی۔
ستمبر 2017 تک بلدیہ فیکٹری میں لگنے والی آگ کا نہ تو ٹرائل شروع ہوا تھا، نہ ہی کوئی بیان ریکارڈ کرایا گیا۔ اگرچہ 2015 میں سندھ ہائی کورٹ حکم دے چکی تھی کہ کیس کو ایک سال کے اندر مکمل کیا جائے، مگر ایک عرصے تک کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا۔
مگر اس کا سبب کیا تھا؟
اس کی وجہ تھی سیاسی مداخلت اور جبر!
یہ سیاسی اثراتنا شدید تھا کہ پہلے پہل تمام تر الزام فیکٹری مالکان پر ڈال کر انھیں گرفتار کر لیا گیا۔ لچھے دار بیانات داغے گئے، دعوے، دلاسے دیے گئے۔ البتہ جب اصل ذمے داروں کی قوت کم ہوئی، تو مجرم کا چہرہ بے نقاب ہونے لگا۔
2015 میں سیکیورٹی اداروں کی جانب سے پہلی بار یہ بیان سامنے آیا کہ یہ یہ آگ حادثاتی طور پر نہیں، بلکہ جان بوجھ کر بھتہ نہ دینے کی صورت میں لگائی گئی تھی۔ اور یہی سچ تھا۔
ایم کیو ایم کی جانب سے اس موقف کو شدت سے رد کیا گیا(اور رد کرنے کا سلسلہ آج تک جاری ہے)۔ ہٹلر کی تکنیک پر عمل کرتے ہوئے جھوٹ بولا گیا۔ پروپیگنڈا کیا جارتا رہا۔ مگر دھیرے دھیرے حقائق سامنے لگے۔
ایک ایک کرکے سب کردار بے نقاب ہوگئے۔ ایم کیو ایم کے سیکٹر انچارج عبدالرحمان بھولا اور زبیر چریا کا نام آیا۔ حماد صدیقی کے حوالے سے انکشافات ہوئے۔ اور آخری میں ساری کڑیاں لندن سے جا ملیں۔
یہ جرم کی وہی کہانی تھی، جو اس شہر میں برسوں سے دہرائی جارہی تھی، جب ملزمان گرفتار ہوئے، تو لرزہ خیر حقائق سامنے آنے لگے۔ وحشت اور بربریت کی ایسی داستان، جس کے سامنے ظلم کی ہر کہانی بے معنی ہوجائے۔ عیاں ہوگیا کے درندہ صفت کارندوں نے کس طرح اپنی لالچ میں زندہ انسانوں کو آگ کے جہنم میں دھکیل دیا۔
کچھ حلقوں کا موقف ہے کہ اس سانحہ کے پیچھے حادثاتی عوامل کارفرما تھے، وہ مصر ہیں کہ بھتہ خوری کی کہانی حقیقی نہیں۔
تو اگر آپ 11 ستمبر2012 کو سول اسپتال کے مردہ خانے میں موجود ہوتے، تو آپ کو اندازہ ہوتا ہے کہ جرم کی پردہ پوشی اور انصاف میں تاخیر جرم سے بڑا جرم ہے۔