ایک جے آئی ٹی کی قیمت تم کیا جانو
کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ شہر کراچی اور یہاں کے باسی بہت مظلوم ہیں پھر خیال آتا ہے مظلوم نہیں بیوقوف ہیں جو عرصے سے ذلت و رسوائی کے سمندر میں غرق ہیں۔ لوگ ان کا مال بھی لوٹ رہے ہیں، ان کی جانیں بھی لے رہے ہیں اور انہیں کس طرح جینا ہے یہ بھی بتا رہے ہیں۔ ان کا خون، ان کا پیسہ اور ان کا وقت اس قدر سستا ہے کہ جس کا دل چاہے وہ استعمال کر سکتا ہے۔ پیپلز پارٹی ہو، ایم کیو ایم ہو یا عوامی نیشنل پارٹی ہر ایک نے اپنے وقتوں میں یہاں کے لوگوں کے ساتھ خوب تماشہ کیا ہے۔
ہم کراچی کے باسی کیا اس قدر بے بس و لاچار ہیں؟ ہم تیسرے درجے کے شہری ہیں جو ہمارے ساتھ ہر بار یہی سلوک کیا جاتا ہے۔ جب چاہے سیاسی مافیا اپنے گنڈے ہم پر مسلط کر کے اپنی مرضی کے کام کرواتی ہے۔ ہماری اپنی زندگی کوئی نہیں؟ گینگ وار اور ایم کیو ایم کے دور میں کیا کچھ نہیں ہوا اس شہر کے ساتھ، کیا ساری کہانی پھر سے دہرانے کی ضرورت ہے؟ نو گو ایریاز، بھتہ خوری، لوٹ مار، دہشت گردی، قتل و غارت کیا کچھ نہیں ہوتا رہا اس شہر میں؟ روزانہ بیس، پچیس لاشیں اہلِ کراچی والے اٹھاتے تھے۔ کاروبار کرنا ہے تو بھتہ دو، قربانی کرنی ہے تو بھتہ دو، فطرہ دینا ہے تو بھتہ دو، عبادت کرنی ہے تو بھتہ دو۔
یہ جے آئی ٹی، جے آئی ٹی کب تک کھیلتے رہیں گے؟ کرایے کے قاتلوں کو گرفتار کرکے یا سڑک پر گولی مارنے سے اس شہر کا مسئلہ حل ہو جائے گا؟ اُن مافیاز پر کون ہاتھ ڈالے گا جن کی منشا پر یہ سب کچھ کیا جاتا تھا؟ کون انصاف دلائے گا اس شہر کے لاچار اور لاوارث لوگوں کو؟ ہمیں جے آئی ٹی نہیں انصاف چاہیے۔ ہمیں صرف انصاف نہیں بلکہ یہ وعدہ بھی چاہیے کہ مستقبل میں سیاسی سپورٹ لے کر کوئی بھتہ خور، کرایے کا قاتل اس شہر کا ڈان بن کر ہم سے ہمارا حلال رزق چھین کر نہیں لے جائے گا، ہمارے سامنے ہمارے عزیزوں کو قتل کرکے نہیں جائے گا، قانون کے رکھوالے ان کے آگے بے بس اور لاچار نظر نہیں آئیں گے۔ یہ گارنٹی کون دے گا؟
انصاف کا نہ ملنا، جے آئی ٹی کو لے کر پریس کانفرینسز کرنا اور ایک دوسرے پر الزام تراشی کرنا کراچی کی عوام کے ساتھ انصاف نہیں بلکہ ان کے ساتھ مذاق ہے۔ ظلم و جبر کی یہ اندھیری رات نہ جانے کب ختم ہوگی، برابری کا اُجلا سویرا نہ جانے کب ہوگا، طاقت کا سرچشمہ عام عوام نہ جانے کب بنے گی۔ سب کھیل تماشہ ہو رہا ہے، ایک طرف قاتل کھڑا مسکرا رہا ہے اور دوسری طرف مظلوم اپنی تقدیر پر ماتم کر رہا ہے۔ یہ شہر ہے کہ جنگل جہاں جس کی جو مرضی کر رہا ہے۔ کراچی والوں کو جے آئی ٹی کا لالی پاپ نہ دیں، انہیں وہ ماحول فراہم کریں جہاں وہ آزادی سے سانس لے سکیں، اپنی زندگی اپنی مرضی سے جی سکیں۔ورنہ ایسی جے آئی ٹی جو انصاف فراہم کرنے کے بجائے سیاست کرنے کا ذریعہ بنے وہ قانون کے منہ پر تمانچہ ہے اورکراچی کے باسیوں کے ساتھ ایک کھُلا مذاق بھی۔