قیامت صغریٰ۔۔۔ جب زمیں شق ہوئی
محمد راحیل وارثی
8 اکتوبر 2005 قومی تاریخ کا الم ناک ترین دن تھا جب قیامت صغریٰ بپا ہوئی اور ملکی تاریخ کی سب سے بڑی آفت زلزلے کی صورت نازل ہوئی جس کے نتیجے میں ایک محتاط اندازے کے مطابق 80 ہزار سے اوپر افراد جاں بحق ہوئے، لاکھ سے زائد لوگ زخمی ہوئے، لاکھوں بے گھر ہوگئے۔ انفرا اسٹرکچر کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ وہ ایام قیامت خیز تھے۔ ہر سُو تباہی ہی تباہی کے مناظر تھے۔
وطن عزیز اس وقت بھی ایک آفت سے گزر رہا ہے۔ سندھ اور بلوچستان میں آنے والے سیلاب سے کروڑوں لوگ متاثر ہیں۔ لاکھوں بے گھر ہوچکے ہیں۔ بے شمار گھر تباہ، فصلیں برباد ہوچکی ہیں۔ اموات 1500 سے زائد ہوچکی ہیں۔ سیلاب کی تباہ کاریاں اب بھی جاری ہیں۔
خیبرپختون خوا اور آزاد کشمیر میں 8 اکتوبر 2005 کو آنے والے قیامت خیز زلزلے کی تباہ کاریاں اور لرزہ خیز یادیں 17 سال بعد بھی تازہ نظر آتی ہیں۔
زلزلے سے آزاد کشمیر کے ضلع مظفرآباد اور باغ کے بیشتر علاقے متاثر ہوئے۔ زلزلے سے اسلام آباد کے مارگلہ ٹاورز کا ایک حصہ زمین بوس ہوگیا تھا۔
8 اکتوبر 2005 کے قیامت خیز زلزلے کو 17 برس بیت گئے۔ زلزلے سے 80 ہزار سے زائد افراد جاں بحق ہوئے۔ خیبر پختون خوا اور آزاد کشمیر میں بڑے پیمانے پر تباہی آئی۔
زلزلے کے خوف ناک جھٹکوں نے لمحوں میں بستیاں تباہ کردیں۔ زلزلہ زیر زمین 15 کلومیٹر کی گہرائی میں آیا جس کی شدت 7٫6 ریکارڈ کی گئی۔ زلزلے کے بعد کئی روز تک آفٹر شاکس کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ زلزلے سے بالاکوٹ کا 95 فیصد انفرا اسٹرکچر تباہ ہوگیا۔
مظفرآباد میں بھی تباہی آئی۔ باغ، ہزارہ اور راولاکوٹ میں ہزاروں افراد متاثر ہوئے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق زلزلے سے 28 لاکھ افراد بے گھر بھی ہوئے۔
اس زلزلے میں 80 ہزار سے زائد افراد جاں بحق اور ہزاروں زخمی ہوئے جب کہ کئی علاقے صفحہ ہستی سے مٹ گئے تھے۔ بعض زخمی تو ایسے بھی ہیں جو اب تک معذوری کی زیست بسر کررہے ہیں۔
صبح 8 بج کر 52 منٹ پر رمضان المبارک کے مہینے میں مظفرآباد، باغ، وادی نیلم، چکوٹھی اور دیگر علاقوں میں 7.6 شدت کا قیامت خیز زلزلہ آیا جس میں خیبر پختون خوا(اس وقت صوبہ سرحد) کی 10 سے زائد تحصیلیں صفحہ ہستی سے مٹ گئیں۔
زلزلے کا مرکز وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے 95 کلومیٹر دور اٹک اور ہزارہ ڈویژن کے درمیان تھا۔ زلزلے کے نتیجے میں لاکھوں مکانات زمین بوس ہو گئے۔ 2005 میں آنے والے زلزلے میں مظفرآباد کا علاقہ سب سے زیادہ متاثر ہوا جہاں مکانات، اسکولز، کالجز، دفاتر، ہوٹلز، اسپتال، مارکیٹیں، پلازے پلک جھپکنے میں ملبے کا ڈھیر بن گئے۔
اس علاقے میں میں 50 ہزار سے زیادہ افراد جاں بحق اور ہزاروں زخمی ہوئے جب کہ پانچ لاکھ افراد بے گھر ہوئے۔
زلزلہ زدگان کے عزم و ہمت کو عالمی سطح پر سراہا گیا اور بے پناہ جانی و مالی نقصان کے بعد دنیا بھر سے پاکستان کو مالی امداد دی گئی۔ پاکستان بھر کے عوام بھی پیچھے نہ رہے۔ دل کھول کر امدادی سرگرمیاں جاری رکھی گئیں۔ ملک کے فلاحی اداروں نے زلزلہ زدگان کو ریسکیو کرنے اور ان کی امداد کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت اُٹھا نہیں رکھا۔ دن رات جدوجہد جاری رکھی۔ اس خوف ناک زلزلے کو 17 برس ہوچکے