زینب سے ماہم تک۔۔۔ درندگی کے لرزہ خیز واقعات
افضل خان
بدھ کی صبح میرے واٹس ایپ پر ابتدائی خبر کے ساتھ ایک لرزہ خیز تصویر موصول ہوئی۔ تصویر میں کچرا کنڈی میں 6 برس کی معصوم بچی ماہم کی لاش پڑی تھی، چہرے پر بڑی تعداد میں مکھیاں جمع تھیں، پرانے کپڑوں میں جتنی سلوٹیں دکھائی دیں، اس سے زیادہ جسم پر درندگی کے نشانات واضح تھے۔ لاش کی ایسی تصویر خبر کے ساتھ شائع کرنا ممنوع ہے، لیکن میں سوچ رہا ہوں ایسا کیوں ہے؟ جب کہ ہم بے حس معاشرے میں زندہ ہیں، کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب ملک کے کسی نہ کسی کونے سے کم سن بچوں، بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور قتل کی خبریں آتی ہیں، سماجی سطح پر ایک ابال آتا ہے، سیاسی بیانات اور پولیس کی پھرتیاں شروع ہوجاتی ہیں اور پھر کچھ عرصے بعد معاملہ سب کے ذہنوں سے نکل جاتا ہے۔
6 سالہ ماہم کو بھی نامعلوم جنسی درندوں نے زیادتی کے بعد قتل کیا، اس خبر نے معاشرے کے ہر طبقے کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا، ایس پی لانڈھی شاہ نواز چاچڑ کا کہنا تھا کہ بچی کورنگی کے علاقے غوث پاک میں اپنے گھر سے منگل رات کو قریباً 9 بجے لاپتا ہوگئی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ والدین نے پولیس کو منگل کی شب رات گئے قریباً 12 بجے اطلاع دی اور بچی کی لاش کچرا کنڈی سے صبح 5 بجے ملی، بچی کی گردن ٹوٹی ہوئی تھی، لاش کو قانونی کارروائی مکمل کرنے کے لیے جناح اسپتال منتقل کیا گیا۔
جناح اسپتال کی ایڈیشنل پولیس سرجن ڈاکٹر سمیعہ سید نے بتایا کہ بچی کے پوسٹ مارٹم سے ظاہر ہوتا ہے کہ بچی کو زیادتی کے بعد قتل کیا گیا، انہوں نے کہا کہ بچی کے سر اور پورے جسم کے علاوہ نازک اعضا پر کئی زخم تھے، ڈاکٹر سمیعہ سید نے بتایا کہ ڈی این اے پروفائلنگ اور میچنگ کے لیے نمونے حاصل کرلیے گئے ہیں اور بچی کے کپڑے بھی سیل کردیے گئے ہیں۔
پولیس حکام کے مطابق بظاہر لگتا ہے کہ ماہم سے زیادتی اور قتل میں کوئی ایسا شخص ملوث ہے، جسے بچی جانتی تھی اور ملزم نے شناخت کے ڈر سے اس کو قتل کیا، پولیس نے علاقے سے متعدد مشتبہ افراد کو حراست میں لیا ہے، منگل کو علاقے میں ایک شادی کی تقریب ہوئی تھی، وہاں کی بھی ویڈیوز حاصل کی جارہی ہیں، ہر گلی ہر موڑ پر موجود معلومات اکٹھی کی جارہی ہیں، علاقے میں ہونے والی دیگر شادی کی تقریبات کی بھی ابھی جانچ کی جارہی ہے، کرائم سین یونٹ نے جائے وقوعہ اور اطراف کے علاقوں کا دورہ کیا ہے جب کہ پولیس نے علاقے میں غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث افراد کا ڈیٹا جمع کرلیا ہے، اب انہیں بھی شامل تفتیش کیا جارہا ہے۔
پاکستان میں بچوں کے ساتھ جنسی استحصال کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، گزشتہ برس ستمبر میں بھی کراچی کے علاقے پی آئی بی کالونی میں 5 سال کی بچی لاپتا ہوگئی تھی اور دو دن بعد اس کی لاش محلے کی کچرا کنڈی سے ملی تھی۔ بچی کے اغوا، زیادتی اور قتل سے اہل علاقہ مشتعل ہوگئے اور انہوں نے اگلی صبح اس کی تدفین کے بعد یونیورسٹی روڈ پر احتجاج کیا تھا۔
جولائی 2020 میں سیالکوٹ کی تحصیل پسرور کے گاؤں بٹر ڈوگراں چننڈا میں دو افراد کے ہاتھوں گینگ ریپ کا نشانہ بننے والی 8 سالہ بچی دوران علاج اسپتال میں دم توڑ گئی تھی۔
جنوری 2018 میں بھی قصور میں 8 سالہ زینب کو اغوا کرنے کے بعد قتل کردیا گیا تھا، جس پر ملک بھر میں شدید احتجاج کیا گیا تھا اور بعدازاں ملزم کو پکڑ کر تختۂ دار پر لٹکادیا گیا تھا۔
آخر وہ کون سے عوامل ہیں، جن کی وجہ سے بچوں کے جنسی استحصال کے واقعات میں کمی نہیں آپارہی؟
بچوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم کے سربراہ رانا آصف اس بارے میں کہتے ہیں کہ اس وقت پاکستان میں زینب الرٹ بِل اور ریپ کے مختلف قوانین موجود ہیں، لیکن اس کے باوجود کیسز کی تعداد میں کمی نہیں ہوپارہی۔ پچھلے تین برسوں میں ایک مثبت فرق یہ دیکھنے میں آیا کہ عدالتوں میں بچوں کے جنسی استحصال کے مقدمات ہنگامی بنیادوں پر سنے جاتے ہیں، دوسری جانب یہ درست کہ ریپ کے کیسز میں سزائیں ملنا ان واقعات کو روکنے میں ایک بڑا عنصر ثابت ہوسکتی ہیں، لیکن اس کے ساتھ دیگر عوامل پر بھی غور کرنا پڑے گا۔ سماج میں سدھار کے لیے خاص طور پر بچوں کو جنسی استحصال سے بچانے کی خاطر والدین کو بھی اپنا بھرپور کردار ادا کرنا پڑے گا۔
معصوم ماہم کو سپرد خاک کردیا گیا، اکثر ماہم ایسی بچیوں کی موت کی خبریں ہی ان سے ہونے والی زیادتی کی خبر کو سامنے لانے کا باعث بنتی ہیں ورنہ صرف جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والے کئی بچے ہیں، جن کا نام والدین منظرعام پر ہی نہیں لاتے۔
پاکستان میں بچوں کو خصوصی طور پہ جنسی ہراسانی کے واقعات سے تحفظ دینے کے لیے کام کرنے والا ادارے "ساحل” کے 2020 کے اعداد و شمار کے مطابق بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے 2 ہزار 9 سو 60 واقعات رپورٹ ہوئے، جو 2019 کے مقابلے میں 4 فیصد زیادہ ہیں۔ ان اعداد و شمار کے مطابق 2020 میں روزانہ 8 بچے جنسی زیادتی کا نشانہ بنے۔
رواں سال اب تک جنسی زیادتی کی شرح میں بھی مسلسل اضافہ ہورہا ہے، اہم بات یہ کہ یہ اعداد و شمار اخبارات میں رپورٹ ہوئے ہیں، کیونکہ اکثر و بیشتر واقعات پہ اس لیے پردہ ڈال دیا جاتا ہے کہ گھر کی عزت اور بچوں کے مستقبل کا بھرم باقی رہے۔
ماہم سے ہونے والے انسانیت سوز واقعے کو دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ ہمارے بچوں کا مستقبل کتنا غیر محفوظ ہے۔
ماہم کے والدین بھی پولیس کی بروقت کارکردگی نہ دکھانے پر غم و غصے کا شکار ہیں، کیا یہ الارمنگ سچویشن قانون نافذ کرنے ولے اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان نہیں؟
دنیا کے کئی ممالک میں جنسی جرائم کی روک تھام کے لیے ’سیکس اوفینڈر رجسٹر‘ سمیت فارنزک سائیکاٹری کا استعمال کیا جاتا ہے، جس کی مدد سے جنسی جرائم میں ملوث افراد پر نظر رکھی جاتی ہے اور ایسے افراد کی نفسیاتی بحالی کے مراکز قائم کیے جاتے ہیں، لیکن افسوس کہ پاکستان میں ایسا کوئی ڈیٹا بیس موجود ہے نہ ہی کوئی بحالی مراکز۔ اگر ڈیٹا بیس یا بحالی مراکز بنانے میں وسائل کی کمی آڑے آتی ہے تو حکومت کم از کم ایسی قانون سازی کرسکتی ہے جس کے ذریعے کم عمر بچوں کو ہوس کا نشانہ بنانے والے انسان نما درندوں کو عبرت ناک سزائیں دی جاسکیں۔
حکومت کو چاہیے کہ ایسے واقعات کی مکمل روک تھام کے لیے ہنگامی اقدامات کرے، ملزمان کی گرفتاری کے لیے ٹیکنالوجی کے استعمال کے ساتھ معاشرے میں والدین اور بچوں کو ایسے واقعات سے بچاؤ کے لیے باقاعدہ آگاہی پروگرامز شروع کیے جائیں۔
حکومت کے فرائض بڑھنے سے والدین کے فرائض کسی صورت کم نہیں ہوتے، والدین کو چاہیے وہ بچوں کو ابتدائی تعلیم سے آگاہی دیں۔اُنہیں حفاظتی تدابیر سے روشناس کروایا جائے۔ انہیں سکھایا جائے کہ وقت آنے پر اپنی حفاظت کیسے کرتے ہیں۔ اگر آج ہم اپنے بچوں کا بچاؤ نہیں کرتے تو کل ہمارے پاس پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔