ہمیں 82 ارب روپے کے شارٹ فال کا سامنا ہے مراد علی شاہ

CM Sind press conference

کراچی وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت کی طرف سے قومی معیشت میں جو ترقی دکھائی گئی ہے وہ آنکھوں میں دھول جھونکنے کے برابر ہے، معیشت میں گروتھ کو ظاہر کیا ہے مگر وفاقی حکومت نے اس حوالے سے مختص رقم میں کوئی تبدیلی نہیں کی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں وفاقی منتقلیوں میں 82 ارب روپے کے شارٹ فال کا سامنا ہے، لہذا ہمارے بجٹ کے تخمینوں کو بری طرح سے متاثر کیا گیا ہے۔
یہ بات انہوں نے پیر کے دن وزیراعلیٰ ہاؤس میں پرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ انکے ساتھ صوبائی وزراء، اسماعیل راہو ، امتیاز شیخ اور سید ناصر حسین شاہ تھے۔
سید مراد علی شاہ نے کہا کہ ٹیکسوں کی اکثریت وفاقی حکومت جمع کرتی ہے اور پھر اسے اتفاقی فارمولے کے مطابق اس حصے کو صوبائی حکومتوں کو منتقل کیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کا دعوی ہے کہ قومی معیشت میں گروتھ دیکھنے میں آئی ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر معیشت میں گروتھ ہوئی ہے تو ایف بی آر کے اہداف میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ ایف بی آر کے پاس 4.89 ٹریلین روپے کی وصولی کا ہدف تھا لیکن وہ اس میں ناکام رہے اور پھر حکومت نے اس ہدف میں اصلاح کرتے ہوئے اسے 4.71 ٹریلین روپے کردیا۔
وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ ایف بی آر نے پچھلے تین سالوں کے دوران 17 فیصد اضافہ دکھایا ہے، لیکن سندھ ریونیو بورڈ (ایس آر بی) نے 21 فیصد اضافہ دیکھایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری شرح گروتھ ایف بی آر کے مقابلے میں چار فیصد زیادہ ہے۔ ایف بی آر کی کارکردگی پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ کیونکہ اہداف کے حصول میں ان کی ناکامی نے محصول میں صوبائی حصہ کو متاثر کیا ہے۔
سید مراد علی شاہ نے کہا کہ حکومت سندھ کو بتایا گیا تھا کہ اسے تقسیم پول اور براہ راست منتقلیوں سے 742 ارب روپے دیئے جائیں گے اور ہم نے اسکے مطابق اپنا بجٹ تیار کیا ہے۔دن کے اختتام پر وفاقی حکومت نے سندھ حکومت کے شیئر کو 742 بلین روپے سے کم کرکے 680 بلین روپے تک کردیا جس کی وجہ سے محض نظرثانی میں 62 بلین روپے کی کمی واقع ہوئی۔انہوں نے مزید کہا کہ گذشتہ 11 ماہ کے دوران حکومت سندھ کو اپنے حصے سے 82.5 بلین روپے کم ملے ہیں ۔
وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ آخری این ایف سی ایوارڈ کو 11 سال گزر چکے ہیں اور وفاقی حکومت نئے ایوارڈ پر کام کرنے میں ناکام رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے ایک نیا وفاقی وزیر خزانہ [شوکت ترین] مقرر کیا ہے جو آخری این ایف سی ایوارڈ کا معمار تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ حیرت کی بات ہے کہ [وفاقی] وزیر خزانہ جس نے آخری این ایف سی ایوارڈ پر کام کیا تھا وہ پی ٹی آئی حکومت کو قابل قبول تھا لیکن ان کا ایوارڈ انہیں قبول نہیں تھا۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی حکومت ہمیشہ این ایف سی ایوارڈ پر تنقید کرتی رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسئلہ ایوارڈ کا نہیں ہے بلکہ یہ محصولات کی وصولیوں کا ہے جس میں موجودہ حکومت کے تحت ایف بی آر ناکام رہا ہے، لہذا صوبوں کے ساتھ ساتھ وفاقی حکومت کو بھی مالی پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
پی ایس ڈی پی: وفاقی پی ایس ڈی پی کے بارے میں بات کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ سندھ کو وہ منصوبے دیئے گئے جن کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ 21-2020ء میں پی ایس ڈی پی میں وفاقی حکومت نے سندھ میں مختلف اسکیموں کے لئے 9.7 ارب روپے مختص کیے تھے لیکن وہ صرف 500 ملین روپے ہی استعمال کرسکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب ان کے منصوبوں کو پی ایس ڈی پی میں شامل کیا گیا تو صوبائی حکومت سے مشاورت نہیں کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ ترقیاتی منصوبوں کا ہمیشہ گراؤنڈ پر تصور کیا جاتا ہے، لیکن وفاقی حکومت منصوبے براہ راست دے رہی ہے اور وفاقی پی ڈبلیو ڈی کے توسط سے ان پر عمل پیرا ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ براہ راست منصوبے ڈپلیکیشن میں نہیں ہوں گے بلکہ بدعنوانی کا باعث ہوں گے۔
سید مراد علی شاہ نے کہا کہ وفاقی حکومت یہ الزام عائد کررہی ہے کہ صوبائی حکومت کے پاس ترقیاتی منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کی گنجائش نہیں ہے ، لہذا وہ صوبائی حکومت کو صرف فنڈز دے رہے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ میں آپکو ان کی بدعنوانیاں یاد دلانا چاہتا ہوں کہ حکومت سندھ نے حیدرآباد-میرپورخاص روڈ ، کراچی- ٹھٹھہ شاہراہ پی پی پی موڈ کے تحت اور متعدد دیگر شاہراہیں تعمیر کیں اور دریائے سندھ پر پل بھی تعمیر کیے ہیں۔
مردم شماری: مردم شماری کے بارے میں بات کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ جب اس کی منظوری دی گئی تو انہوں نے سی سی آئی میں اس پر اعتراضی نوٹ پیش کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے اس معاملے کو پارلیمنٹ میں بھیج دیا ہے اور اس معاملے پر تبادلہ خیال کے لئے مشترکہ اجلاس طلب کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ سندھ میں گھرانوں کے خاندانی سائز کو دوسرے صوبوں کے مقابلے میں کم دکھایا گیا ہے، اگر سندھ میں گھرانوں کی اصل تعداد کو شمار کیا جاتا تو اس صوبے کی آبادی 62 ملین سے زیادہ ہوجاتی۔انہوں نے مزید کہا کہ چونکہ ہماری آبادی کو ناقص مردم شماری کے تحت کم دکھایا گیا ہے، لہذا قومی وسائل میں بھی ہمارا حصہ کم ہوا ہے۔
پانی: سید مراد علی شاہ نے کہا کہ وہ کسی بھی صوبے پر پانی چوری کرنے کا الزام نہیں لگا رہے ہیں لیکن ان کی شکایت وفاقی حکومت کے خلاف ہے جس نے ارسا کو 1991 کے پانی معاہدے کو اس کے اصل روح کے مطابق نافذ کرنے کی اجازت نہیں دی۔
انہوں نے کہا کہ مئی 2021 کے مہینے میں پنجاب میں 1991 کے معاہدے کے تحت 10 یوم کی بنیاد پر پانی کی قلت پہلے 10 یوم میں 20.27 فیصد، دوسرے 10 یوم میں 5.08 فیصد اور 10.23 فیصد تیسرے 10 یوم میں ریکارڈ کی گئی ۔ سندھ میں پہلے 10 یوم میں پانی کی قلت 34.5 فیصد، دوسرے 10 یوم کے دوران 39.8 فیصد اور تیسرے 10 یوم کے دوران 40.27 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔
سید مراد علی شاہ نے کہا کہ یکم سے 10 جون کے دوران ، سندھ اور بلوچستان میں 35 فیصد اور پنجاب کو 23 فیصد کمی کا سامنا کرنا پڑا ہے جبکہ کے پی کے کو اس کے حصے سے 38 فیصد زیادہ پانی ملا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا موقف ہے کہ پانی کے معاہدے کے مطابق قلت کو یکساں طور پر تقسیم کیا جائے۔
اٹارنی جنرل آف پاکستان نے 1991 کے معاہدے پر اپنی رپورٹ میں حکومت سندھ کے نقطہ نظر کی توثیق کی تھی۔میں حیران ہوں اس سارے منظر نامے پر ارسا خاموش ہے لیکن وفاقی حکومت اپنے انسپکٹرز کے ذریعے ہمارے پانی کا معائنہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہماری شکایت بہت آسان ہے کہ پانی کی تقسیم میں 1991 کے معاہدے کی خلاف ورزی کی جارہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ مسئلہ قانونی اور تکنیکی ہے، لیکن وفاقی حکومت اس کو ایک سیاسی مسئلہ بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔
اسٹیل ملز: وزیراعلیٰ سندھ نے وفاقی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اسٹیل ملز کو فعال کرنے کے بجائے اسے بند کررہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ آپ ان تمام ملازمین کو فارغ کر رہے ہیں جنہیں پی پی پی حکومت نے مقرر کیا تھا۔
گیس کی قلت: سید مراد علی شاہ نے کہا کہ سندھ کو گیس کی قلت کا سامنا ہے جو آئین کے آرٹیکل 158 کی بھی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 158 کے تحت آئین اس علاقے کے لوگوں کو ترجیح دیتا ہے جہاں سے گیس نکلتی ہے لیکن یہاں ایسا نہیں ہو رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب بھی اس نے صوبے کے مسائل پر بات کی ہے اس پر سندھ کارڈ کھیلنے کا الزام لگایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ صوبے کے چیف ایگزیکٹو ہونے کی حیثیت سے ان کا فرض ہے کہ وہ صوبے کے عوام کے حقوق کا تحفظ کریں۔
سید مراد علی شاہ نے کہا کہ ہائیڈل پاور کا منافع کے پی کے کو دیا گیا ہے اور وہ ہمیشہ اس کی حمایت کرتے رہے ہیں کیونکہ یہ آئینی ہے لیکن جب ہم اپنے حقوق کی بات کرتے ہیں تو ہم پر صوبائی ازم کو فروغ دینے کا الزام لگایا جاتا ہے۔ انہوں نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سندھ کا معاشی طور پر قتل عام کیا گیا ہے۔
سندھ پولیس: وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کی پریس کانفرنس کا ایک طنزیہ حوالہ دیا جس میں انہوں نے سندھ پولیس پر کڑی تنقید کی ہے، وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ فواد چودھری کو فرائض کی ادائیگی کے دوران اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے اور شہر میں امن امان بحال کرنے والے پولیس اہلکاروں کا مذاق اڑانے کا کوئی حق نہیں ہے ۔
انہوں نے کہا کہ پچھلے تین سالوں کے دوران، 81 پولیس اہلکار اپنی ڈیوٹی کے دوران اپنی جانیں دے چکے ہیں جن میں کراچی میں 45، سکھر اور حیدرآباد کے علاقوں میں 36 اہلکار شامل ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ سندھ پولیس ہے جس نے دہشت گردوں، ڈاکوؤں، لینڈ مافیا اور منشیات مافیا کے خلاف جنگ لڑی ہے اور صوبے خصوصاًشہر کراچی میں امن و امان بحال کیا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ کراچی دنیا کے کرائم انڈیکس میں ساتواں خطرناک ترین شہر تھا اور اب یہ نیچے آ کر 198 ویں نمبر پر آگیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ سندھ پولیس کی کارکردگی اور آپ [فواد چوہدری] پولیس کے حوصلہ شکنی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ آپ [فواد چوہدری] نے پولیس کی قربانیوں سے انکار کرتے ہوئے شہداء کے اہل خانہ کو تکلیف پہنچائی ہے۔انہوں نے کہا کہ پولیس نے رینجرز اور دیگر ایجنسیوں کے ساتھ مل کر ایک قابل ستائش کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے جس کی تعریف کی جانی چاہئے۔
سوال و جواب:
سید مراد علی شاہ نے کراچی کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومت کے محدود وسائل ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمیں پانی، سولڈ ویسٹ، روڈ سیکٹر، نکاسی آب اور دیگر شعبوں میں بڑی سرمایہ کاری کرنا ہوگی ور اس مقصد کے لئے وفاقی حکومت اور بین الاقوامی عطیہ دہندگان کو سندھ حکومت کی حمایت کرنا ہوگی۔
سید مراد علی شاہ نے کہا کہ شہر میں ترقیاتی منصوبوں پر عوامی سرمایہ کاری کو بنیادی ڈھانچے اور انسانی ترقی پر مرکوز کرتے ہوئے گذشتہ 5 سالوں (2015 سے 2020) کے بعد سے بڑھا دیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مجموعی طور پر سکیورٹی اور سرمایہ کاری کے ماحول میں نمایاں بہتری لائی گئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت سندھ نے کراچی کے لئے مختلف ترقیاتی پروگرام اور منصوبے شروع کیے ہیں جو تکمیل کے مختلف مراحل پر ہیں۔
چند اہم منصوبوں کے بارے میں بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس میں 98 ملین ڈالرز کا کراچی نیبرہوڈ امپرومینٹ منصوبہ، اربن روڈ انفراسٹیکچر اور کاروبار کو سہل بنانے کے منصوبے شامل ہیں، جن پر عمل درآمد جاری ہے۔
انہوں نے کہا کہ کمپلیٹیٹو اینڈ لائیو ایبلٹی سٹی آف کراچی (CLICK) میں لوکل کونسلز کی ادارہ جاتی مضبوطی اور بنیادی انفرااسٹریکچر کی مالی اعانت کے لئے 240 ملین ڈالر کا فنڈ ہے۔اربن امپروئیبل پراپرٹی ٹیکس کے منصوبے کے تحت اور آسانی کے ساتھ کاروبار کرنے میں معاونت بھی جاری ہے۔
سید مراد علی شاہ نے کہا کہ متعدد اصلاحات کے ذریعہ کے ڈبلیو ایس ایس بی کی طویل المدتی مضبوطی پر فوکس کرنے کے لئے 105 ملین ڈالرز کا کراچی واٹر سپلائی اینڈ سینی ٹیشن انوائرمینٹ پروجیکٹ (کے ڈبلیو ایس ایس پی) شروع کیا گیا ہے۔بس ریپڈ ٹرانسپورٹ (بی آر ٹی) یلو لائن 438 ملین امریکی ڈالرز کا منصوبہ شہر کے لئے ایک اور میگا ٹرانسپورٹ منصوبہ ہے۔بس ریپڈ ٹرانسپورٹ (بی آر ٹی) ریڈ لائن؛ اس منصوبے کیلئے 561 ملین ڈالرز کی منظوری دے دی گئی ہے اور جلد ہی اس شہر میں ایک اہم ٹرانسپورٹ کوریڈور کے طور پر عمل میں لایا جائے گا۔
اگلے مالی سال میں کراچی کے لوگوں کو مستحکم معیشت اور بہتر معیار زندگی کی فراہمی کے لئے سالانہ ترقیاتی پروگرام 22-2021 میں کراچی کے لئے مختلف ترقیاتی منصوبوں کے لئے تقریباً 438 ملین ڈالر کا بجٹ مختص کیا جائے گا۔
بحریہ ٹاؤن میں بعض املاک کو آگ لگانے کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ 28 ایف آئی آر درج کی گئی ہیں، ان میں سے 2 سرکاری اہلکاروں کی طرف سے جو سرکاری املاک کو نقصان پہچانے جن میں سے ایک بحریہ اور ایک ایف ڈبلیو او اور 24 نجی افراد کی جانب سے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ موقع پر 120 افراد کو گرفتار کیا گیا اور 36 دیگر کو فوٹیج کے ذریعہ نشاندہی پر گرفتار کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ 6 افراد کو رہا کردیا گیا ہے اور ان میں سے کچھ نے ضمانت کرالی ہے۔ مراد علی شاہ نے کہا کہ یہ صوبہ 1980، 1990 اور 2000ء کی دہائی میں بہت زیادہ نازک صورتحال سے دوچار رہا اور اب ہم کسی کو بھی قانون کو ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دینگے۔ انہوں نے کہا کہ ہم کسی بھی قسم کے پرامن احتجاج کو پرتشدد احتجاج میں تبدیل کرنے نہیں دینگے۔ انہوں نے کہا کہ جب بھی ایسی صورتحال سامنے آئے گی تو قانون حرکت میں آئے گا۔ انہوں نے کہا کہ اگر آپ سڑک پر آئینگے اور پاکستان کے خلاف نعرے لگائینگے تو پھر آپ کے اور الطاف حسین کے درمیان کیا فرق رہ جائے گا۔
کچے کے علاقوں میں آپریشن: کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کلین اپ کے بارے میں ایک آخری سوال کے جواب میں سید مراد علی شاہ نے کہا کہ ڈاکوؤں کی سپلائی لائن منقطع کردی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کچے کا علاقہ جہاں ڈاکوؤں نے اپنے ٹھکانے قائم کر رکھے تھے وہ شکار پور، سکھر، لاڑکانہ، گھوٹکی، خیرپور سمیت پنجاب اور بلوچستان کے ساتھ منسلک ہیں۔انہوں نے کہا کہ دیگر صوبوں کے تعاون سے پولیس، رینجرز اور دیگر قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کے تعاون سے ڈاکوؤں کے خاتمے کے لئے ایک جامع اور بھرپور آپریشن کاآغاز کریں گے

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔