گجرات فسادات: سرکاری دستاویزات تلف کرنے پر قانونی ماہرین نے سوالات اٹھا دیے
ریاست گجرات میں سن 2002 میں ہونے والے فسادات سے جڑی دستاویزات کو تلف کرنے کے اعلان پر قانون ماہرین نے سنجیدہ سوالات کھڑے کر دیے۔
تفصیلات کے مطابق نریندر مودی کے دور میں گجرات میں بدترین مذہبی فسادات ہوئے تھے، جن میں 790 مسلمانوں کو قتل اور درجنوں مسلم خواتین سے زیادتی کی گئی۔
رواں برس گجرات حکومت نے ان فسادات کی تحقیقات سے متعلق دستاویزات کو ضایع کرنے کا دعوی کیا، جس پر سنجیدہ حلقوں کی جانب سے سخت ردعمل آیا ہے۔
معروف وکیل مکل سنہا نے، جو تحقیقاتی کمیشن کے سامنے متاثرین کا کیس لڑ چکے ہیں، ریاستی حکومت کے دستاویزات کو معیاری طریقہ کار کے مطابق تلف کرنے کے دعوے کو بے بنیاد قرار دے دیا۔
ان کے مطابق جب جوڈیشل انکوائری کمیشن گودھرا ٹرین قتل عام اور اس کے بعد ہونے والے فسادات کی تحقیقات کررہا ہے، متعلقہ دستاویزات کو یوں ختم نہیں کیا جاسکتا۔
کمیشن کے سامنے کانگریس کی نمایندگی کرنے والے وکیل ہیری لال گپتا نے بھی اسے ناقابل قبول قرار دیا۔ انھوں نے کہا: غیر متعلقہ پولیس دستاویزات” کو ضایع کرنے کے لئے قوانین موجود ہیں، لیکن یہ دستاویزات غیر متعلقہ نہیں تھیں۔
ادھر گجرات کے ڈائریکٹر جنرل پولیس چترنجن سنگھ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ سب کچھ طے شدہ قانون کے مطابق کیا گیا ہے اور قانونی شق کی خلاف ورزی کے تحت کچھ نہیں کیا گیا ہے۔
ماہرین اس عمل کو گجرات کے فسادات پر پردہ ڈالنے کی کوشش قرار دیا ہے۔