کورونا وائرس اور دانش کی موت

صائمہ اقبال

آج یہ جملہ کثرت سے دہرایا جارہا ہے کہ ” کورونا جیسا کچھ نہیں، یہ سب کہنے کی باتیں ہیں۔“
اس جملے کو سن کرلگتا ہے، جیسے ہماری دانش کی موت واقع ہوچکی ہے۔ ہم اس حساس معاملے میں خود کو انتہائی دانا سمجھ بیٹھے ہیں، اور یہ گمان رکھتے ہیں کہ ہم سے زیادہ سمجھ دار کوئی ہے ہی نہیں۔ مگر بھلا یہ کیسی سمجھ داری ہے کہ خطرے کو دیکھ کر آنکھیں بند کر لی جائیں۔
ادھر یہ حال کہ انتہائی نوعیت کے کاموں کے لیے باہر جانے کا سوچ کر بھی انسان ہلکان ہوجائے، کورونا کا سامنا کرنے سے پہلے اس بے پروائی اور بے احتیاطی کا خوف دامن گیر ہوجاتا ہے، جو معاشرے میں عام ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ سڑکوں بازاروں میں سماجی فاصلہ صرف الفاظ کی حد تک ہے۔ کورونا سے پہلے تو پھر بھی شاید کوئی فاصلہ ہو، مگر لاک ڈاﺅن کے باعث پانچ بجے سے پہلے رش یکدم بڑھ جاتا ہے۔ گمان ہوتا ہے، سیل لگی ہے۔
لگتا ہے، ہماری دانش کی موت ہوگئی ہے۔ لوگوں کی قطاریں، ہجوم، چہل پہل خیال گزرتا ہے، لوگ صورت حال سے خوف زدہ ہونے کے بجائے اس سے لطف اندوز ہونے کے لیے باہر نکل رہے ہیں۔
نہ تو ماسک، نہ ہی سینی ٹائزر، نہ ہی سماجی فاصلہ، نہ ہی خطرے کا کوئی احساس ، بلکہ یہ شاید اب تفریح کا معاملہ ہے۔ ایسی صورت حال میں ”تم میرے پاس ہو“ کے دانش کے ساتھ ساتھ ہماری دانش کی بھی موت واقع ہوچکی ہے۔ہماری عقل و فہم گہرے کنواں میں جا گری اور ہم سمجھ داری سے دامن چھڑا کرحمایت کی راہ چل پڑے ہیں۔
پہلے کہتے تھے کہ جو ڈر گیا، وہ مر گیا، مگر آج تو ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ جو ڈر گیا، وہ بچ گیا۔ خدارا اپنی دانش کو واپس لائیں، صورت حال کا جائزہ لیں، سمجھیں اور پھر فیصلہ کریں۔
کورونا وائرس ایک حقیقت ہے۔ پانچ سو ہلاکتیں۔ بیس ہزار متاثرین۔ اپنی پروا نہیں، مگر اپنی اولاد اور اپنے ملنے والوں کا تو خیال رکھیں۔
ابھی ملاقاتیں محدود کر دیں۔ زندگی رہی، تو ملاقاتیں رہیں گی۔
جن احتیاطی تدابیر سے آگاہ کیا جارہا ہے، ان پر عمل کرنا بیوقوفی نہیں، عقل مندی ہے۔ کورونا ہے، اور رہے گا، اپنی دانش پر انحصار کریں، ڈرامے کے دانش کی طرح اسے مرنے مت دیں۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔