کرونا کی وبا اور لوگوں کی معاشی، جذباتی اور دماغی صورت حال کا جائزہ”

کامی سِڈ

جہاں دنیا بھر میں حالات نازک ہیں وہیں ہمارے ملک میں بھی حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں۔ آپ حضرات تو چند دن ہوئے آئیسولیشن کی زندگی گزار رہے ہیں، مگر اس وطن میں ایک ایسا طبقہ بھی ہے جو ہمیشہ سے آئیسولیشن میں رہتا ہے۔ میں جس طبقے کی بات کر رہی ہوں، وہ دنیا کا دھتکارا ہوا، ستایا ہوا، ظلم و ستم کا مارا طبقہ ہے، جسے نہ اپنے پیار کرتے ہیں اور نہ ہی بیگانے۔ میں بات کر رہی ہوں خواجہ سراوُں کی۔

ھم اکثر بات کرتے ہیں، آفت آنے کی، عذاب الٰہی کی پر عام زندگی میں ہم دوسروں پر کتنا ظلم ڈھاتے ہیں۔ خواجہ سرا طبقہ ہمیشہ سے ہی ظلم و ستم کا شکار رہا ہے۔
پیدا ہونے سے لے کر بڑے ہونے تک، عجیب عجیب الفاظ سننے کو ملتے ہیں، معاشرہ تو کبھی قبول نہیں کرتا کہ ہمارا بھی اس دنیا میں وجود ہے۔جب پیدا کرنے والا کسی بات کی تفریق نہیں کرتا تو پھر یہ دنیا والے ھمیں کیوں غلط ٹہراتے ہیں۔

آج جب جب پوری دنیا اور خاص کر پاکستان کے تمام لوگ اور حکومت پریشان ہیں کہ کہ اس مصیبت سے کیسے سے بچا جائے، وہی خواجہ سراؤں کو یہ مصیبت ہے کہ دو وقت کی روٹی کا انتظام اور گھر کا کرایہ کس طرح ادا کیا جائے گا؟ اگر اسی دوران کوئی خواجہ سرا بیمار ہو جاتا ہے تو اسے کون سا ڈاکٹر دیکھے گا کیونکہ ہمارے سارے ملک کے صحت کا انتظام صرف ان لوگوں کے لئے ہے جو یا تو پرائیویٹ ہسپتالوں میں میں دکھا سکتے ہیں یا جن کی سرکاری ہسپتال میں کوئی جان پہچان والا ہو۔ اگر وہ مرد یاعورت ہیں تو ڈاکٹرز انہیں دیکھ لینگے لیکن خواجہ سراؤں کے ساتھ بہت ہی برا سلوک کیا جاتا ہے۔

ان خواجہ سراوُں کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ تو نہ بیچارے ہڑتال کرتے ہیں، نہ دھنگا فساد کرتے ہیں اور نہ ہی کسی کو دھمکاتے ڈراتے ہیں۔ ان کی سنوائی بھی کہیں نہیں ہے، انہیں عام زندگی میں یا تو حقیر سمجھا جاتا ہے یا کوئی دوسری مخلوق تصور کرکے الگ تھلگ کردیا جاتا ہے۔ عام حالات میں جب ان کی سنوائی نہیں تو اس لاک ڈاوُں جیسی سنگین صورتِ حال میں خواجہ سرا کمیونٹی کس کے پاس جاکر اپنی فریاد کریں؟ اربابِ اختیار نے انہیں ہمیشہ نظر انداز کیا ہے اور اب بھی نظر انداز ہی کر رہے ہیں۔

مشکل وقت اور کٹھن حالات کا مقابلہ تو خواجہ سرا ہمیشہ سے ہی کرتے آئے ہیں، معاشرے کی حقارت اور نظر اندازی کے باوجود خواجہ سرا اپنی زندگی کو بھرپور گزارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دن بھر لوگوں کے طعنے، حقارت بھری نظریں اور دھتکار کے باوجود بھی یہ خواجہ سرا مسکرانے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔ تنہائیوں میں اگرچہ وہ اپنی زندگی میں محرومیوں پر آہ و بقا کرتے ہیں، رو دھو لیتے ہیں لیکن کسی سے اس کا شکوہ نہیں کرتے۔

آج جب پورے ملک پر بُرا وقت آپڑا ہے اور وہ آئیسولیشن کا شکار ہیں تو یہ بڑا اچھا موقعہ ہے کہ اہلِ وطن خواجہ سرا کی زندگی کا احساس کریں، خواجہ سرا زندگی بھر کی آئیسولیشن کو سمجھیں اور ان کے حقوق کے لیے ہمارے ساتھ کھڑے ہوکر اس بات کا پیغام دیں کہ یہ قوم انصاف کرنے والی قوم ہے اور یہ قوم بلا تفریق لوگوں کی مدد کرنے میں پیش پیش رہتی ہے۔ آئیں اس مشکل وقت میں ان کی مشکلات کا احساس کریں اور یہ عہد کریں کہ لاک ڈاوُن کے بعد بھی ان کے جائز حقوق کے جدوجہد میں ہم سب ان کا ساتھ دیں گے!

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔