نئی مانیٹری پالیسی، ایک جائزہ

محمد راحیل وارثی

دو تین روز قبل اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے نئی مانیٹری پالیسی کا اعلان کیا۔ اگلے دو ماہ کے لیے شرح سود 13.25 فیصد سے کم کرکے 12.50 فیصد کردی گئی۔ بتایا گیا ہے کہ خام تیل کی گرتی قیمتوں سے پٹرولیم مصنوعات سستی ہوں گی جب کہ اگلے دو ماہ میں مہنگائی کی شرح میں کمی متوقع ہے۔

کورونا وائرس کے باعث معاشی اور سرمایہ کاری کی صورت حال کو دیکھتے ہوئے پالیسی ریٹ جاری کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس کے علاوہ مرکزی بینک نے اسپتالوں اور میڈیکل سینٹرز کو کرونا وائرس سے نمٹنے کے لیے ری فنانس سہولت (RFCC) اور اس کے شریعت سے ہم آہنگ ورژن کا بھی اعلان کیا۔ نئی مانیٹری پالیسی کا مجموعی جائزہ لیا جائے تو اسے مناسب ضرور قرار دیا جاسکتا ہے، لیکن یہ موجودہ حالات سے ہم آہنگ ہرگز نہیں ٹھہرائی جاسکتی۔ ایک ایسے وقت میں جب پوری دُنیا کورونا وائرس کے عفریت سے نبردآزما ہے اور قریباً تمام ہی ممالک موجودہ معاشی ابتر صورت حال کے تناظر میں اپنے ہاں شرح سود میں معقول کمی یقینی بنارہے ہیں، اپنے عوام کو سہولتیں بہم پہنچارہے ہیں، کم تر شرح سود پر قرضوں کی فراہمی کے بندوبست کیے جارہے ہیں کہ کاروبار کے مواقع پیدا ہوں، سرمایہ کاری میں اضافہ ہو، صنعتیں لگیں، روزگار کے مواقع پیدا ہوں، اس کے برعکس وطن عزیز میں شرح سود میں کمی کی بھی گئی تو محض اونٹ کے منہ میں زیرا کہ جس سے اکثریت استفادہ کرنے سے اجتناب کرے گی۔ اس سے تاجروں اور صنعت کاروں میں خاصی مایوسی پائی جاتی ہے۔اس تناظر میں شرح سود میں کمی سراسر ناکافی قرار دی جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ اس میں اور مناسب سطح پر کمی کی ضرورت تھی۔ اسے معقول حد تک یعنی سنگل ڈیجیٹ پر لایا جاتا تو یہ عوامی مفاد میں بہترین فیصلہ قرار پاتا۔

دوسری طرف جہاں تک عالمی منڈی میں تیل کی گرتی قیمتوں کا سوال ہے تو اس حوالے سے نرخ1997ء کی سطح پر آچکے ہیں جب پٹرول 18 روپے لیٹر فروخت ہوتا تھا، لیکن آج یہ 112 روپے فروخت کیا جارہا ہے۔ اس ضمن میں حکومت کو عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں کے ثمرات حقیقی معنوں میں عوام تک پہنچانے کے لیے انقلابی فیصلے لینے کی ضرورت ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ عوام النّاس خوش حالی سے کوسوں دُور ہیں، موجودہ مہنگائی میں اُن کے لیے روح اور جسم کا رشتہ برقرار رکھنا دُشوار ترین امر ہوکر رہ گیا ہے۔ ایسے حالات میں اُنہیں آسانیاں فراہم کرنے کے ساتھ اُن کی مشکلات اور مصائب کم کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی و بڑھوتری کا اثر براہ راست مہنگائی پر پڑتا ہے۔ اس لیے مسلسل اور خوف ناک گرانی سے قوم کو نجات دلانے کے لیے ازحد ضروری ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں 50 روپے کی سطح پر لائی جائیں۔ اس اقدام کے مہنگائی سے نمٹنے میں خاصی مدد ملے گی۔ حکومت بھی اپنی عمل داری یقینی بنائے۔ ذخیرہ اندوزوں، منافع خوروں اور گراں فروشوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرے تو صورت حال خاصی موافق ہوسکتی ہے۔ کورونا وائرس سے نمٹنے کے تناظر میں اسپتالوں اور میڈیکل سینٹروں کو ری فنانس سہولت فراہم کرنا یقیناً احسن فیصلہ ہے، جس کی توصیف نہ کرنا ناانصافی کے زمرے میں آئے گا۔ غرض یہ کہ نئی مانیٹری پالیسی کو موجودہ حالات کے مطابق ترتیب دیا جاتا تو اس کے ثمرات ملک و قوم پر انتہائی احسن طریقے سے پڑتے۔وقت کا تقاضا ہے کہ ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں فیصلے کیے جائیں۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔