مظلوم عورت اور اس کا استحصال

ماریہ تاج بلوچ

پاکستان عورتوں کے لیے دنیاکا سب سے خطرناک ملک ہے جو کہ اِس وقت چھٹے نمبر پر ہے۔ جہاں گھریلو تشدد اور جنسی ہراسانی تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ ویسے ملک بھر میں ہراسانی سے متعلق ہمیں زیادہ تر خبریں پنجاب سے ملتی ہیں۔ لیکن خیبر پختونخوا، سندھ اور بلوچستان بھی اس معاملے میں پیچھے نہیں ہیں۔ آئے دن ملک میں ریپ، گھریلو تشدد، اور ہراسمنٹ کیسز بڑھتی جارہی ہیں۔ 2018 میں نبیلہ نامی کریم ڈرائیور کو اس کے شوہر نے نہ صرف آزاد زندگی گزارنے پر قتل کیا بلکہ حال ہی میں ایک شوہر نے بیوی کو اچھا کھانا پیش نہ کرنے پہ بھی موت کے گھاٹ اتار دیا۔

جنسی بدسلوکی کی بات کی جائے تو اس ملک میں عورتیں اپنی جگہ مگر معصوم 9 ماہ سے 15، 16 سال کی بچیاں بھی اپنے ہی خاندان کے لوگوں سے محفوظ نہیں ہیں۔ اس حوالے سے ساحل آرگنائزیشن کی رپورٹ کے مطابق 2019 میں 4000 کیسزز، جب کہ 2020 میں اب تک 70 بچیوں کے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ زیادہ تر عورتیں جو کمپنیز میں کام کرتی ہیں وہ سب سے زیادہ جنسی ہراسانی اور جنسی بدسلوکی کا شکار ہوتی ہیں۔ یہاں عورتیں درس گاہ جیسی پاک جگہ پہ بھی محفوظ نہیں ہیں۔ کام کرنے کی جگہ، بازار، درس گاہیں، پبلک ٹرانسپورٹ، یہاں تک کہ گھروں کے اندر بھی انہیں محفوظ نہیں پایا جاتا۔ اگر ہم بلوچستان کی بات کریں تو یہاں بھی غیرت کے نام پر قتل بہت عام ہے، جہاں بیٹی کو پڑھانا لکھانا ضروری نہیں سمجھا جاتا، کیونکہ لوگ اب بھی اُسے چادر اور چار دیواری کا تصور مانتے ہیں۔

آج بھی بیٹی کو اپنے پسند کی شادی تو دور، اپنی مرضی کے مطابق کپڑے زیب تن کرنے کی بھی اجاز نہیں۔ ہوش سنبھالنے سے پہلے ہی اس کی شادی کرا دی جاتی ہے کیونکہ وہ ذمہ داری کے نام پر ایک بوجھ ہوتی ہے جس سے جلد سے جلد چھٹکارا پانا ہوتا ہے۔ جہاں بیوی کو شوہر کا کہنا نہ ماننے پر لعن طعن تک کیا جاتا، کیونکہ ماں باپ کے گھر سے نکلنے کے بعد وہ اپنے شوہر کی ذاتی ملکیت بن جاتی ہے۔ بلوچستان بھر میں 2019 کے 11 مہینوں میں 118 تشدد کے کیسز رپورٹ ہوئے۔ عورتوں کے حقوق کی تنظیم "عورت فاونڈیشن” کے مطابق 43 عورتوں کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا۔ بہت ساری عورتوں کو نہ صرف اغوا کیا گیا بلکہ کوئٹہ، مستونگ، پشین اور دیگر علاقوں میں پولیو ورکرز اور دیگر خواتین پر تیزاب پھینکا گیا، جن کی تعداد 4 بتائی جاتی ہے۔ ایک آرٹیکل کے مطابق حکومتِ بلوچستان ریپ کیسز، جنسی بدسلوکی اور دیگر ایسے مسائل کو رپورٹ کرنے سے قاصر ہے۔

عورت فاونڈیشن کے پروگرام آفیسر کے مطابق ایسے بہت سے کیسز رپورٹ نہیں کیے جاتے ہیں جو عورتوں پر تشدد اور بدسلوکی سے متعلق ہوں۔ جس کی وجہ سے مجرم کو مزید جرم کرنے کا موقع ملتا ہے۔ بلوچ عورت جب شادی کرتی ہے تو اس کے زہن میں یہ بات بٹھایا جاتا ہے کہ شوہر جیسا سلوک کرے، مارے پیٹے تمہیں برداشت کرنا ہے۔ کیونکہ شادی کے بعد شوہر کا گھر ہی تمہارا گھر ہے۔ اسی سوچ کو لے کر زیادہ تر عورتیں مرد کے تشدد کرنے پر خاموشی اختیار کر لیتی ہیں۔ اسی ظلم کو اپنی قسمت سمجھ کے انھیں سب کچھ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ صنفِ نازک، کمزور، مظلوم جیسے القابات نواز کے عورت کو ہمیشہ سے کمتر دکھایا گیا ہے، جو کہ اس کے استحصال کی سب سے بڑی وجہ ہے۔

ہمارے یہاں اب تک زیادہ تر عورتیں خود بھی حکومتی لائحہ عمل اور اقدامات سے ناواقف ہیں۔ ملک کے باقی صوبوں کی طرح بلوچستان میں بھی جنسی ہراسانی سے متعلق قوانین پاس کیے گئے ہیں، لیکن ان کا اطلاق جیسا کہ سندھ میں نظر آتا، بلوچستان میں نہیں۔ غیر سرکاری، سماجی اور حکومتی اداروں کو چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو جنسی ہراسانی سے متعلق معلومات فراہم کریں تاکہ لوگ بناٸے گئے قوانین کو نہ صرف جان سکیں بلکہ اپنے لیے انصاف کے راستوں کو بآسانی تلاش کر سکیں۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔