مانیٹری پالیسی کا اعلان، شرح سود 11 فیصد پر برقرار

کراچی: اسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی کمیٹی نے شرح سود 11 فیصد پر برقرار رکھنے کا اعلان کیا ہے۔
گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد نے مانیٹری پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ پالیسی ریٹ 11 فیصد کی موجودہ سطح پر برقرار رہے گی، گزشتہ مالی سال اوسط افراط زر 4.5 فیصد رہا جبکہ سال شرح سود اسٹیٹ بینک اور حکومت کی توقع پانچ سے سات فیصد سے کم رہا۔
انہوں نے کہا کہ فوڈ انفلیشن اور کور انفلیشن میں گزشتہ مالی سال نمایاں کمی آئی، کور انفلیشن 7.2 فیصد پر رہا اور جون میں افراط زر 3.2 فیصد رہا۔ اپریل میں افراط زر 0.3 فیصد پر آکر مئی اور جون میں اضافہ ہوا، رواں مالی سال کے شروع میں افراط زر میں اضافہ کم اور آگے چل کر زیادہ رہے گا۔
گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ توانائی کی قیمتوں میں ردوبدل سے بھی افراط زر پر اثر پڑے گا، مانیٹری پالیسی کمیٹی نے ایکسٹرنل اکاؤنٹ کا گہرائی سے جائزہ لیا۔
انہوں نے کہا کہ امپورٹ میں گزشتہ مالی سال نمو رہی، امپورٹ 53 ارب ڈالر سے بڑھ کر 59 ارب ڈالر رہی جو 11 فیصد زائد ہے۔ نان آئل امپورٹس میں 16 فیصد اضافہ ہوا اور معاشی سرگرمیوں کی وجہ سے نان آئل امپورٹ میں اضافہ ہوا۔
گورنر نے کہا کہ ترسیلات اور ایکسپورٹ میں بھی اضافہ ہوا، ایکسپورٹ کا اضافہ 4 فیصد تک محدود رہا، خسارے پر قابو پانے کے لیے ایکسپورٹ میں اضافہ ضروری ہے۔ گزشتہ مالی سال ترسیلات میں 8 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا، ترسیلات اب قانونی اور باضابطہ طریقوں سے آرہی ہے، ترسیلات بڑھنے سے کرنٹ اکاؤنٹ فاضل رہا۔
انہوں نے کہا کہ سال 2022 میں جاری کھاتے کا خسارہ 17.5 ارب ڈالر تھا اور 2023 میں جی ڈی پی کا ایک فیصد 2024 میں نصف فیصد رہا، اس سال جاری کھاتہ 14 سال بعد سرپلس رہا جو کہ 22 سال کا بلند ترین سرپلس رہا۔
گورنر نے بتایا کہ اسٹیٹ بینک نے انٹر بینک مارکیٹ میں بھی سرگرمیاں کیں جس سے شرح مبادلہ بہتر رہی، قرضوں کی ادائیگی کے باوجود زرمبادلہ کے ذخائر میں ایک سال کے دوران 5 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا، گزشتہ سال 26 ارب ڈالر کی بیرونی قرضوں میں سے 10 ارب ڈالر کی ری پے منٹس کی گئیں۔ امپورٹ اور زرمبادلہ کی تمام ضروریات کو بینکنگ سیکٹر نے پورا کیا۔
گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ گزشتہ مالی سال معاشی نمو 2.7 فیصد رہی اور زرعی شعبے میں سست نمو سے معاشی ترقی کی رفتار کم رہی، البتہ صنعتی سرگرمیاں بہتر رہیں اور خدمات کے شعبے نے بھی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا۔ رواں مالی سال زرعی شعبے میں بہتری کی امید ہے جس سے معاشی نمو بھی بہتر رہے گی۔
انہوں نے کہا کہ رواں مالی سال افراط زر کا ہدف وسط مدتی 5 سے 7 فیصد کی رینج میں رہے گا، افراط زر میں اضافے کی توقع ہے، اس کے باوجود وسط مدت ہدف حاصل کریں گے۔ کچھ مہینوں میں افراط زر 7 فیصد سے زائد رہے گی، تاہم اوسط 5 سے 7 فیصد رہے گا، کور انفلیشن میں کمی آرہی ہے جو آگے جاکر بڑھے گا۔
گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ گزشتہ مالی سال جاری کھاتہ سرپلس رہا اور اس سال امپورٹ میں اضافہ ہو رہا ہے جس سے جاری کھاتے پر اثر پڑے گا، رواں مالی سال جاری کھاتے کو جی ڈی پی کے صفر سے ایک فیصد خسارے کا سامنا ہوگا۔
انہوں نے بتایا کہ ترسیلات، امپورٹ اور ایکسپورٹ کی کارکردگی پر منحصر ہے کرنٹ اکاؤنٹ بیلنس کیا رہے گا۔ رواں مالی سال ترسیلات زر 40 ارب ڈالر سے زائد رہنے کی توقع ہے جبکہ معاشی ترقی کی شرح نمو رواں مالی سال 3.25 سے 4.25 فیصد کے درمیان رہے گی اور معاشی نمو میں زراعت کا حصہ 0.6 فیصد سے بڑھے گا۔
گورنر کا کہنا تھا کہ بڑی فصلوں کو بارشوں اور پانی کی دستیابی سے فائدہ ہوگا جبکہ زراعت کی کارکردگی گزشتہ سال سے بہتر لیکن 2024 سے کم رہے گی۔ صنعتی شعبے اور خدمات کی کارکردگی بھی بہتر رہنے کی توقع ہے۔
گورنر اسٹیٹ بینک نے بتایا کہ رواں مالی سال 25.9 ارب ڈالر کے بیرونی قرضے ادا کرنا ہوں گے جبکہ قرضوں کی ادائیگی گزشتہ مالی سال سے قدرے کم رہے گی، گزشتہ مالی سال بھی 26 ارب ڈالر کے قرضے سیٹل کیے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ 16 ارب ڈالر کے قرضے رول اوور ہوں گے اور 10 ارب ڈالر ہمیں ادا کرنا ہوگا، 22 ارب ڈالر کے پرنسپل قرضے اور 4 ارب ڈالر کی سودی ادائیگیاں شامل ہیں۔ جون 2022 میں مجموعی پبلک قرضہ 100 ارب ڈالر تھا اور تین سال سے بیرونی قرضے اسی سطح پر برقرار ہیں، نئے قرضے لیتے ہیں لیکن پچھلے قرضے ادا کرتے ہیں۔
گورنر نے کہا کہ 2015 سے 2022 کے دوران 7 سال کے دوران سالانہ 6 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا لیکن گزشتہ تین سال میں اضافہ نہیں ہوا، 2022 میں 43 فیصد قرضہ عالمی ترقیاتی اداروں سے طویل مدتی اور سستا قرضہ لیا، ملٹی لٹرل طویل مدتی سستے قرضوں کا تناسب 50 فیصد سے زائد ہے۔
انہوں نے کہا کہ سودی ادائیگیاں کم ہو رہی ہیں، بین الاقوامی مارکیٹ میں شرح سود 2 فیصد سے بڑھ کر 4.25 فیصد تک آگیا لیکن اس کے باوجود پاکستان کی سودی ادائیگیاں کم ہوئی ہیں، نئے قرضوں پر کم سود ادا کر رہے ہیں جبکہ قرضوں کی مدت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
گورنر نے کہا کہ بیرونی قرضوں کی پائیداری اور پاکستان کی قرضہ ادا کرنے کی صلاحیت بڑھ رہی ہے، بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسیوں نے اسی وجہ سے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ کو اَپ گریڈ کر دیا ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر 14 ارب ڈالر سے زائد ہیں جو اس سال کے قرضوں سے زائد ہے۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔