لندن: سائرہ پیٹر کی آواز میں قلندری دھمال ریلیز
پاکستان کی پہلی صوفی اوپرا گلوکارہ سائرہ پیٹر نے اپنی آواز میں قلندری دھمال کی وڈیو ریلیز کردی، جس میں برطانوی گلوکار بھی شریک ہیں۔
تفصیلات کے مطابق سائرہ پیٹر کی دھمال نے سوشل میڈیا پر دُھوم مچادی، شعبہ موسیقی کے مختلف طبقات کی جانب سے اسے سراہا گیا۔ میڈیا سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ قلندری دھمال کا جادو کئی برسوں سے سر چڑھ کر بول رہا ہے، اسی لیے میں نے دھمال کو نئے انداز اور انگریز گلوکاروں کے ساتھ گانے کا تجربہ کیا۔ میں اپنے جذبات، خیالات، احساسات، تجربات اور مشاہدات کو گیتوں کا روپ دے کر صُوفیانہ اور عارفانہ کلام کو دنیا کے مختلف ممالک میں عام کررہی ہوں۔ میڈیا اور سوشل میڈیا نے میرے پیغام اور فن کو آگے پہچانے میں مدد کی۔
سائرہ پیٹر کا کہنا تھا کہ میرا مشن ایک طرف تو میری پاکستانی اقدار ہیں، جن میں امن، یگانگت اور محبت کے پیغام کو صُوفیانہ کلام کے ذریعے پُوری دُنیا میں پھیلانا ہے اور دوسری طرف میری برطانوی اقدار ہیں، جن میں مختلف ثقافتوں اور دنیا کی مختلف کمیونٹیز کے درمیان فاصلوں کو کم کرنے کی کوشش کو فروغ دینا ہے۔
واضح رہے کہ سائرہ پیٹر نے برِصغیر کے صُوفیانہ کلام خصوصاً سندھ کے صُوفی شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی کی شاعری کا انگریزی میں ترجمہ کرکے اسے مغربی اوپرا کلاسیکل موسیقی کے ساتھ ترتیب دے کرپیش کیا ہے۔
سائرہ پیٹر ایک تربیت یافتہ سوپرانو اوپرا سنگر ہیں اور ایک ریکارڈ کے مطابق ان کی آواز کا حلقہ ایشیا میں اب تک سب سے وسیع ہے۔
ان دنوں وہ نئے ملی نغمے اور پاکستان کے جشن آزادی کے موقع پر برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمیشن میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کی تیاریاں کررہی ہیں۔ اس کے علاوہ سائرہ برطانیہ کے برٹش میوزیم میں پاکستانی ہائی کمیشن کی جانب سے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے مجسمے کی تقریب رونمائی میں بھی پرفام کرچکی ہیں۔
سائرہ پیٹر کی دنیا کی مختلف اقوام کو اپنے صوفیانہ کلام کے ذریعے ایک دوسرے کے قریب لانے کی کوششوں کو سراہتے ہوئے برطانیہ کی ایسٹ ایسکس کاؤنٹی نے دیگر ممالک کے افراد کو برطانوی شہریت دینے کی تقریب کے لیے ان کی آواز میں برطانیہ کا قومی ترانہ "گاڈ سیو دی کوئین” ریکارڈ کروایا ہے۔
وہ شاہ لطیف فاؤنڈیشن بورڈ کی رکن بھی ہیں اور شاہ لطیف ایوارڈ بھی حاصل کرچکی ہیں۔
سائرہ پیٹر سابق وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو کے بعد دوسری شخصیت ہیں، جنہیں مزار کی 350 سالہ تاریخ میں مزار کے نگرانِ اعلیٰ کے ہاتھوں سے یہ اعزاز حاصل ہوا ہے۔