لاک ڈاؤن میں نرمی، فیصلہ 14 اپریل کو ہوگا، وزیراعظم
کوئٹہ: وزیراعظم نے کہا ہے کہ لاک ڈاؤن میں نرمی کا فیصلہ 14اپریل کوکریں گے، تبھی فیصلہ کریں گے کون سے شعبے کھولنے ہیں۔مشاورت چل رہی ہے۔
وزیر اعظم کورونا وائرس کی صورتحال کا جائزہ لینے ایک روزہ دورے پر کوئٹہ پہنچے۔ان کے اس دورے کے دوران وفاقی وزرا اسد عمر اور زبیدہ جلال بھی ہمراہ تھے جبکہ انہیں بلوچستان میں کورونا وائرس کی صورتحال اور وائرس کے پھیلنے سے روکنے کے لیے اقدامات کے حوالے سے بریفنگ بھی دی گئی۔
کوئٹہ میں وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال اور وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر کے ساتھ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سب سے زیادہ غربت بلوچستان میں ہے، کورونا وائرس سے سارا پاکستان متاثر ہے۔ سارے چھوٹے دکاندار لاک ڈاؤن کی وجہ سے متاثر ہو گئے ہیں اور ہم کوشش کر رہے ہیں کہ ان لوگوں کی کیسے مدد کر سکیں، اس کے لیے آج ہم نے احساس پروگرام شروع کیا ہے۔انہوں نے کہ ملکی تاریخ میں سب سے بڑا احساس پروگرام شروع کیا ہے جو اس سے قبل کسی بھی حکومت نے شروع نہیں کیا تھا، ایک کروڑ 20 خاندان کو ہم 12 ہزار روپے دیں گے، قریباً سولہ ہزار پوائنٹس پر پورے پاکستان میں اس کا آغاز کر دیا ہے۔
عمران خان کا مزید کہنا تھا کہ بلوچستان میں غربت سب سے زیادہ ہے، تو اسی لیے میں آیا تھا کہ تاکہ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کے ساتھ پوری طرح بات کر سکیں، کہ کیسے ہم لوگوں کی زندگی بہتر کر سکتے ہیں۔انہوں نے کہ 14 تاریخ کو بلوچستان سمیت سارے صوبے فیصلہ کر رہے ہیں کہ کون کون سی چیزیں کھولنی ہے تاکہ لوگوں کو روز گار مل سکے۔ اس پر ابھی مشاورت چل رہی ہے۔ اس کا فیصلہ 14 تاریخ کو ہو جائے گا۔امید ہے سارا پاکستان مل کر کورونا وباسے لڑے گا اور قوم یہ جنگ جیتے گی، یہ بار بار اس لیے کہتا ہوں کہ حکومت یہ جنگ اکیلے نہیں جیت سکتی۔انہو نے کہا کہ پورا ملک اس سے نمٹنے کی تیاری کررہا ہے، ہمارا نیشنل کمانڈ ایک آپریشن سینٹر بنا ہے جس میں روازنہ سارے چیف سیکریٹریز اور صوبوں کے ساتھ رابطہ ہوتا ہے، اس کے علاوہ ہمارے ماہرین صحت کورونا وائرس کے کیسز کا مکمل جائزہ لے رہے ہیں اور یہ بھی دیکھ رہے کہ کتنی اموات ہوئی اور ان کی کیا عمر تھی جبکہ ابھی کتنے لوگ آئی سی یوز میں ہیں۔انہوں نے کہا کہ پوری دنیا میں وینٹی لیٹرز اور ذاتی تحفظ کی کٹس کی کمی ہے اور طلب بڑھنے کی وجہ سے دنیا میں اس پر دباؤ بڑھا ہوا ہے ہمیں لگ رہا ہے کہ مہینے کے آخر تک ہمارے ہسپتالوں پر بڑا دباؤ پڑے گا۔انہوں نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ بلوچستان میں یہ دباؤ کم ہوگا لیکن دیگر صوبوں میں زیادہ ہوگا کیونکہ یہاں صرف کوئٹہ میں آبادی زیادہ ہے ۔