فاطمہ بنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم

سہیر عارف

ایک عظیم اور بہترین عورت، ایک ایسی شخصیت جو پیغمبر صل اللہ علیہ والہ وسلم کی لختِ جگر تھیں. ویسے تو پیغمبر اکرم علیہ السلام کی چار بیٹیاں تھیں لیکن اُن چاروں میں سیّدہ فاطمہ حضور علیہ السلام کو سب سے زیادہ محبوب تھیں، اور جو مقام و مرتبہ حضرت فاطمہ کو حاصل ہے وہ دنیا کی کسی عورت کو حاصل نہیں. سیّدہ فاطمہ کی تربیت نبوّت کے گھر میں ہوئی ایک ایسا گھر جہاں قُرآنی آیات کا نزول ہوتا تھا، جہاں فرشتوں کا آنا جانا تھا. مکّہ کی روز مرّہ کی خبروں نے بھی سیّدہ فاطمہ کی زندگی پر گہرا اثر ڈالا کیونکہ اُس وقت مسلمانوں پر ظلم ہو رہا تھا لیکن انھوں نے ہر واقعہ سے دَرس لیا.

ایک وقت نبی پاک علیہ السلام کی زندگی میں ایسا بھی آیا کہ گھر میں صرف نبی علیہ السلام اور سیّدہ فاطمہ موجود تھے، کیونکہ حضرت خدیجہ کا انتقال ہوچکا تھا اور نبی علیہ السلام کی دوسری بیٹیوں کی شادی ہوچکی تھی، اور اُس وقت تک نبی پاک علیہ السلام نے دوسری کوئی شادی بھی نہیں کی تھی. اِس دور میں کیونکہ مَکّہ میں مشکلات کا دور تھا تو اِن حالات میں حضرت فاطمہ اپنے بابا کو دلاسا دیتی تھیں اور اُن کا اچھی طرح خیال رکھتی تھیں.
اور پھر ہجرتِ مدینہ کے ٢/٣ سال بعد سیّدہ کی شادی کائنات کے بہترین شخص حضرت علی بن ابی طالب سے ہوئی، اور اُس شادی میں سیّدہ فاطمہ کو جو چیزیں تحفہ میں ملیں نبی پاک علیہ السلام کی طرف سے وہ یہ ہیں: "ایک سفید قمیض، ایک سَر ڈھانپنے والی چادر، ایک خیبری حِلّہ، ایک چکّی، مٹی کے کچھ برتن، کھجور کے پتّوں سے بنی ہوئی چارپائی، پانی بھرنے والی مشق، ایک گھڑا، دو بستر، چار سِرہانے، تانبے کا ایک پیالہ،
ایک لوٹا” جن کی مجموعی قیمت ٨٠ دِرہم تھی.

سیّدہ فاطمہ کے مشہور القابات کچھ یوں ہیں:
زہراء، بتول، سیّدۃالنساء، خاتونِ جنّت، مخدومہ کائنات، طیّبہ، عابدہ، طاہرہ، زاہدہ وغیرہ. اور آپ کی کُنیّت اُمّ الحَسنین ہے.

سیّدہ زہراء کو جو فضائل حاصل ہیں وہ دنیا کی اور کسی عورت کو حاصل نہیں، جن میں سب سے بڑی فضیلت رسولِ خدا محمّد مصطفی علیہ السلام کی بیٹی ہونا ہے اور ولیوں کے سردار علی شیرِ خدا کی زوجہ ہونا اور اُن کی دو بیٹے حَسن اور حُسین جنتی نوجوانوں کے سردار ہیں.

قرآن پاک کی کئی آیات ایسی ہیں جن کی مصداق سیّدہ فاطمہ زہراء قرار پائیں، جیسے کہ آیتِ تطہیر، آیتِ مباہلہ، آیتِ مَودّت سورہ کوثر اور دوسری اہم آیات بھی.

سیّدہ زہراء وہ ہستی ہیں جن کے بارے میں نبی پاک علیہ السلام نے فرمایا کے فاطمہ جنّتی عورتوں کی سردار ہے، جن کے بارے میں نبی اعظم علیہ السلام نے فرمایا کہ فاطمہ میرے جگر کا تُکڑا ہے جس نے اُسے ازیّت دی اُس نے مجھے ازیّت دی، ایک اور موقع پر پیغمبر علیہ السلام نے فرمایا کہ چار عورتیں جنّت کی بہترین ہیں، اور سیّدہ فاطمہ اُن میں سے ہیں.
نبی اکرم علیہ السلام جب بھی سفر پر جاتے تو سب سے آخر میں اپنی بیٹی سے الوداع کرتے اور جب سفر سے واپس آتے تو سب سے پہلے اپنی بیٹی سے ملتے، کیونکہ رسولِ خدا علیہ السلام کو اپنی بیٹی سے جُدائی زیادہ دن برداشت نہیں تھی.

حضرت عائشہ کہتی ہیں میں نے دیکھا جب سیّدہ فاطمہ گھر آتیں تو نبی پاک علیہ السلام اُن کا استقبال کرتے، اُن کے سر کا بوسہ لیتے اور اُن کو اپنی جگہ بٹھاتے اور جب نبی علیہ السلام اُن کے گھر جاتے تو وہ بھی اِسی طرح کرتیں. ایک اور موقع پر کسی نے حضرت عائشہ سے پوچھا کہ نبی پاک علیہ السلام سب سے زیادہ محبت کس سے کرتے تھے، تو اُنھوں نے فرمایا اپنی بیٹی فاطمہ سے اور مردوں میں اُن کے شوہر علی سے. سیّدہ عائشہ کہتی ہیں میں نے فاطمہ سے زیادہ نبی پاک علیہ السلام کے مشابہ کسی کو نہیں دیکھا اور جب وہ چلتیں اور بات کرتیں تو ایسا لگتا جیسے رسولِ خدا علیہ السلام چل رہے ہیں اور بات کر رہے ہیں.

حضرت فاطمہ کی پوری زندگی فقر و فاقہ میں گزری، اُنھوں نے کبھی کسی آسائش کی چیز کے لیئے خوائش نہ کی اور مولا علی کی بہتریں بیوی ثابِت ہوئی.

حضرت فاطمہ کیونکہ گھر کے کام خود کرتی تھیں اور چکّی چلاتی تھیں، پانی بھر کر لاتی تھیں جس کی وجہ سے اُن کی کمر پر نشان پڑ گئے تھے اور ہاتھ میں گٹھے، تو مولا علی نے اُن کی اِس تکلیف کو دیکھتے ہوئے اُن سے کنیز کا مطالبہ کرنے کو کہا نبی علیہ السلام سے، اور اُس وقت نبی اعظم علیہ السلام کے پاس کچھ غلام بھی آئے ہوئے تھے، لیکن نبی علیہ السلام نے اپنی بیٹی سے کہا کہ میں تمہیں غلام سے بہتر چیز عطاء نہ کروں اور سیّدہ کے لیئے اِس سے بہتر کیا ہوسکتا تھا، تو اُنھوں نے خوشی خوشی کہا کیوں نہیں بابا جان، اِس موقع پر پیغمبر اکرم علیہ السلام نے تین تسبیحات تعلیم فرمائیں جو تسبیحِ فاطمہ کے نام سے مشہور ہیں.

سیّدہ فاطمہ کو جنّتی عورتوں کی سرداری صرف اِس وجہ سے نہیں ملی کہ رسول خدا علیہ السلام کی بیٹی تھیں بلکہ اُنھوں نے اپنے اعمال سے بھی اپنے رَب کو راضی کیا ہے.
بی بی فاطمہ بہت باحیاء اور پردے والی خاتون تھیں اور دورِ نبوی میں اُن سے بڑھ کر کسی کا پردہ نہیں تھا. سیّدہ فاطمہ ایک بات منقول کہ بہترین عورت وہ ہے جو نہ کسی غیر مَحرم کو دیکھے نہ اُسے کوئی غیر مَحرم دیکھے.

نبی پاک علیہ السلام نے اپنی وفات کے وقت فرمایا کہ فاطمہ میرے گھر والوں میں سب سے پہلے تم مجھے آکر مِلوگی جس پر وہ خوش ہوگئیں.

سیّدہ فاطمہ کی زندگی مسلمان عورتوں کے لیئے ایک بہترین نمونہ ہے، ہمیں اُن کی زندگی سے "توکّل علی اللہ، صبر و تحمّل، انکساری، عاجزی اور خوش اخلاقی” کا درس ملتا ہے.

جب اُن کی وفات کا وقت قریب آیا تب بھی وہ اپنے پردے کو لیکر بہت پریشان تھیں, اور اُنھوں نے کہا کہ میں نے پوری زندگی اپنی اِفّت، اِسمت، پاکدامنی اور پردہ کا خیال رکھا ہے، تو میں نہیں چاہتی کے دنیا سے رخصت ہوتے وقت لوگ میرا قَد و قامت دیکھے، تو اُن کی اِس پریشانی کو دیکھ کر حضرت اسماء بنت عُمیس نے اُن کو حَبشہ کے جنازہ لے جانے والے  طریقے کے بارے میں بتایا کہ وہ لوگ جنازہ کو قبرستان لے جانے کے لیئے ایک ڈولی نُماء چیز استعمال کرتے ہیں، پھر حضرت فاطمہ کے لئیے اُسی طرز کی ڈولی تیار کی گئی، اور اُنھوں نے مولا علی سے اپنی تدفین کا عمل رات کے وقت لانے کی خوائش ظاہر کی، چنانچہ اُن کی تدفین رات کے وقت بقیع غَرقد میں عَمل میں آئی.
سیّدہ زہراء کو اپنے بابا کی وفات کا شدید غَم تھا، وہ نبی اکرم علیہ السلام کی وفات کے بعد چند ماہ ہی زندہ رہیں.

ایک وقت نبی پاک علیہ السلام کی زندگی میں ایسا بھی آیا کہ گھر میں صرف نبی علیہ السلام اور سیّدہ فاطمہ موجود تھے، کیونکہ حضرت خدیجہ کا انتقال ہوچکا تھا اور نبی علیہ السلام کی دوسری بیٹیوں کی شادی ہوچکی تھی، اِس دور میں کیونکہ مکِہ میں مشکلات کا دور تھا تو حضرت فاطمہ اپنے بابا کو دلاسا دیتی تھیں، اُن کا اچھی طرح خیال رکھتی تھیں.
اور پھر ہجرتِ مدینہ کے ٢/٣ سال بعد جب سیّدہ کی شادی کائنات کے بہترین شخص مولا علی سے ہوئی، اور اُس شادی میں سیّدہ فاطمہ کو جو چیزیں تحفہ میں ملیں نبی پاک علیہ السلام کی طرف سے وہ یہ ہیں،ایک سفید قمیض، ایک سَر ڈھانپنے والی چادر، ایک خیبری حِلّہ، ایک چکّی، مٹی کے کچھ برتن، کھجور کے پتّوں سے بنی ہوئی چارپائی، پانی بھرنے والی مشق، ایک گھڑا، دو بستر، چار سِرہانے، تانبے کا ایک پیالہ، ایک لوٹا جن کی مجموعی قیمت ٨٠ دِرہم تھا.
سیّدہ فاطمہ کو جو فضائل حاصل ہیں وہ دنیا کی اور کسی عورت کو حاصل نہیں، جن میں سب سے بڑی فضیلت رسولِ خدا محمّد مصطفی علیہ السلام کی بیٹی ہونا ہے اور ولیوں کے سردار علی شیرِ خدا کی زوجہ ہونا اور اُن کی دو بیٹے حَسن اور حُسین جنتی نوجوانوں کے سردار ہیں.

قرآن پاک کی کئی آیات ایسی ہیں جن کی مصداق سیّدہ فاطمہ زہراء قرار پائیں، جیسے کہ آیتِ تطہیر، آیتِ مباہلہ، آیتِ مَودّت سورہ کوثر اور دوسری اہم آیات بھی.

سیّدہ زہراء وہ ہستی ہیں جن کے بارے میں نبی پاک علیہ السلام نے فرمایا کے فاطمہ جنّتی عورتوں کی سردار ہے، جن کے بارے میں نبی اعظم علیہ السلام نے فرمایا کہ فاطمہ میرے جگر کا تُکڑا ہے جس نے اُسے ازیّت دی اُس نے مجھے ازیّت دی، ایک اور موقع پر پیغمبر علیہ السلام نے فرمایا کہ چار عورتیں جنّت کی بہترین ہیں، اور سیّدہ فاطمہ اُن میں سے ہیں.
نبی اکرم علیہ السلام جب بھی سفر پر جاتے تو سب سے آخر میں اپنی بیٹی سے الوداع کرتے اور جب سفر سے واپس آتے تو سب سے پہلے اپنی بیٹی سے ملتے،کیونکہ رسولِ خدا علیہ السلام کو اپنی بیٹی سے جُدائی زیادہ دن برداشت نہیں تھی.

حضرت عائشہ کہتی ہیں میں نے دیکھا جب سیّدہ فاطمہ گھر آتیں تو نبی پاک علیہ السلام اُن کا استقبال کرتے، اُن کے سر کا بوسہ لیتے اور اُن کو اپنی جگہ بٹھاتے اور جب نبی علیہ السلام اُن کے گھر جاتے تو وہ بھی اِسی طرح کرتیں. ایک اور موقع پر کسی نے حضرت عائشہ سے پوچھا کہ نبی پاک علیہ السلام کس سے سب سے زیادہ محبت کرتے تھے تو اُنھوں نے فرمایا اپنی بیٹی فاطمہ سے اور مردوں میں اُن کے شوہر علی سے. سیّدہ عائشہ کہتی ہیں میں نے فاطمہ سے زیادہ نبی پاک علیہ السلام کے مشابہ کسی کو نہیں دیکھا اور جب وہ چلتیں اور بات کرتیں تو ایسا لگتا جیسے رسولِ خدا علیہ السلام بات کر رہے ہیں اور چل رہے ہیں.

حضرت فاطمہ کی پوری زندگی فقر و فاقہ میں گزری، اُنھوں نے کبھی کسی آسائش کی چیز کے لیئے خوائش نہ کی اور مولا علی کی بہتریں بیوی ثابِت ہوئی.

حضرت فاطمہ کیونکہ گھر کے کام خود کرتی تھیں اور چکّی چلاتی تھیں، پانی بھر کر لاتی تھیں جس کی وجہ سے اُن کی کمر پر نشان پڑ گئے تھے اور ہاتھ میں گٹھے، تو مولا علی نے اُن کی اِس تکلیف کو دیکھتے ہوئے اُن کنیز کا مطالبہ کرنے کو کہا نبی علیہ السلام سے اور اُس وقت نبی اعظم علیہ السلام کے کچھ غلام بھی آئے ہوئے تھے، لیکن نبی علیہ السلام نے اپنی بیٹی سے کہا کہ میں تمہیں غلام سے بہتر چیز عطاء نہ کروں اور سیّدہ کے لیئے اِس سے بہتر کیا ہوسکتا تھا، تو اُنھوں نے خوشی خوشی کہا کیوں نہیں بابا جان، اِس موقع پر پیغمبر اکرم علیہ السلام نے تین تسبیحات تعلیم فرمائیں جو تسبیحِ فاطمہ کے نام سے مشہور ہیں.

سیّدہ فاطمہ کو جنّتی عورتوں کی سرداری صرف اِس وجہ سے نہیں ملی کہ رسول علیہ السلام کی بیٹی تھیں بلکہ اُنھوں نے اپنے اعمال سے بھی اپنے رَب کو راضی کیا ہے.
بی بی فاطمہ بہت باحیاء اور پردے والی خاتون تھیں اور دورِ نبوی میں اُن سے بڑھ کر کسی کا پردہ نہیں تھا.

نبی پاک علیہ السلام نے اپنی وفات کے وقت فرمایا کہ فاطمہ میرے گھر والوں میں سب سے پہلے تم مجھے آکر مِلوگی جس پر وہ خوش ہوگئیں.

سیّدہ فاطمہ کی زندگی مسلمان عورتوں کے لیئے ایک بہترین نمونہ ہے، ہمیں اُن کی زندگی سے "توکّل علی اللہ، صبر و تحمّل، انکساری، عاجزی اور خوش اخلاقی” کا درس ملتا ہے.

جب اُن کی وفات کا وقت قریب آیا تب بھی وہ اپنے پردے کو لیکر پریشان تھیں, اور اُنھوں نے کہا کہ میں نے پوری زندگی اپنی اِفّت، اِسمت، پاکدامنی اور پردہ کا خیال رکھا ہے، پھر حضرت اسماء بنت عمیس نے اُن کو حبشہ کے طریقے کے بارے میں بتایا کہ وہ لوگ جنازہ کو قبرستان لے جانے کے لیئے ایک ڈولی نُماء چیز استعمال کرتے ہیں، پھر حضرت فاطمہ کے لئیے اُسی طرز کی ڈولی تیار کی گئی، اور اُنھوں نے اپنی تدفین کا عمل رات کے وقت لانے کی خوائش ظاہر کی حضرت علی سے.
سیّدہ زہراء اپنے بابا نبی اکرم علیہ السلام کی وفات کے بعد چند ماہ زندہ رہیں.

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔