خدیجہ بنتِ خویلد شہزادیِ عَرب بنی زوجہ رسول  (صل اللہ علیہ والہ وسلم)

سہیر عارف

ایک عظیم عورت جو عَرب کی مشہور اور کامیاب تاجر تھیں. جب گرمیوں میں قُریشی کاروان تجارت کے لیئے جاتے تو سیّدہ خدیجہ کا کاروان اپنی مثال رکھتا تھا. حضرت خدیجہ کا کاروان قریش کے باقی کاروانوں کے مقابلے بڑا ہوتا تھا.
سیّدہ خَدیجہ ایک رَحَم دِل اور سخی خاتون تھیں اور وہ اپنے رشتہ داروں اور غُرباء کی مدد کے لیئے ہمیشہ حاضر رہتی تھیں.

سیّدہ خدیجہ تجارت کے لیئے ہمیشہ اپنے وفادار لوگوں کو تجارتی کاروان کا ذِمّہ دار بنا کر بھیجتی تھیں اور اِسی دوران اُن کی ملاقات ایسے شخص سے ہوئی جو اپنی صداقت اور ایمانداری کی وجہ سے پورے عَرب میں مشہور تھے یعنی مُحمّد (صل اللہ علیہ والہ وسلم) اور اُن کی اِنہی خوبیوں کی بنیاد پر حضرت خدیجہ نے نبی (علیہ السلام) کو پیغامِ نکاح بھی بھیجا، اُس وقت عرب کا ہر سَردار سیّدہ سے شادی کی خواہش رکھتا تھا حالانکہ وہ اُس وقت بیوہ بھی تھیں، لیکن انھوں اُس وقت تَرجی مال ودولت یا سَرداری کو نہی بلکہ صداقت اور ایمانداری کو دی، آخر کار نبی (علیہ السلام) نے اُن سے شادی کی. حضرت خدیجہ نے کبھی کسی بُت کی عبادت نہیں کی تھی.
پھر جب شادی کے کچھ سالوں بعد پیغمبرِ اکرم (علیہ السلام) نے اعلانِ نَبُوّت کیا تو سیّدہ نبی علیہ السلام کو تسلّی دیتیں اور وہ پہلی ہستی تھیں جنہوں نے اُن کی نَبوّت کی تصدیق کی اور اُن پر ایمان لائیں، جیسا کہ حدیثِ رسول پاک علیہ السلام میں ذکر ہے؛
                    5841 # مشکوٰ ۃ المصابیح
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر وحی کا آغاز سچے و پاکیزہ خوابوں سے شروع ہوا ، آپ جو بھی خواب دیکھتے وہ صبح کی روشنی کی طرح (سچا) ثابت ہو جاتا ، پھر آپ تنہائی پسند ہو گئے ، آپ غار حرا میں خلوت فرمایا کرتے تھے ، آپ اپنے اہل خانہ کے پاس آنے سے پہلے کئی کئی راتیں وہاں عبادت میں مشغول رہتے تھے ، ان ایام کے لیے زادِ راہ ساتھ لے جایا کرتے تھے ، پھر آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خدیجہ ؓ کے پاس تشریف لاتے اور اتنی ہی مدت کے لیے پھر زادِراہ ساتھ لے جاتے تھے ، حتی کہ آپ غارِ حرا ہی میں تھے کہ آپ پر حق (وحی) آ گیا ، فرشتہ (جبریل ؑ) آپ کے پاس آیا تو اس نے کہا پڑھیے ، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ میں قاری نہیں (پڑھنا نہیں جانتا) ہوں ۔‘‘ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ اس نے مجھے پکڑا اور اتنی شدت سے دبایا جس سے مجھے کافی تکلیف ہوئی ، پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا ، اور کہا : پڑھیے ، میں نے کہا : میں پڑھنا نہیں جانتا ۔ اس نے مجھے پکڑ کر دوسری مرتبہ خوب دبایا ، مجھے اس بار بھی کافی تکلیف ہوئی ، پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا ، اور کہا : پڑھیے ، میں نے کہا : میں پڑھنا نہیں جانتا ، اس نے مجھے تیسری مرتبہ دبایا اس بار بھی مجھے کافی تکلیف ہوئی ، پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا اور کہا : پڑھیے اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا فرمایا ، اس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا فرمایا ، پڑھیے ، آپ کا رب بہت ہی کرم کرنے والا ہے ، جس نے قلم کے ذریعے سکھایا ، انسان کو وہ کچھ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا ۔‘‘ چنانچہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کے بعد واپس ہوئے اور آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا دل (خوف کی وجہ سے) دھڑک رہا تھا ، آپ خدیجہ ؓ کے پاس تشریف لائے ، اور فرمایا :’’ مجھے کمبل اوڑھا دو ، مجھے کمبل اوڑھا دو ، انہوں نے آپ کو کمبل اوڑھا دیا حتی کہ آپ کا خوف جاتا رہا تو آپ نے خدیجہ ؓ سے سارا واقعہ بیان کیا اور کہا :’’ مجھے اپنی جان کا اندیشہ ہے ۔‘‘ خدیجہ ؓ نے عرض کیا : ہرگز نہیں ، اللہ کی قسم ! اللہ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا ، آپ صلہ رحمی کرتے ہیں ، راست گو ہیں ، درد مندوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں ، تہی دستوں کے لیے کماتے ہیں ، مہمان کی میزبانی کرتے ہیں ، اور مصیبت زدہ افراد کی اعانت کرتے ہیں ، پھر خدیجہ ؓ آپ کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں ، انہوں نے ان سے کہا : میرے چچا کے بیٹے !اپنے بھتیجے کی بات سنیں ، ورقہ نے آپ سے کہا : بھتیجے ! آپ کیا دیکھتے ہو ؟ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جو دیکھا تھا وہ کچھ اسے بتا دیا ، ورقہ نے کہا : یہ تو وہی ناموس ہے ، جسے اللہ تعالیٰ نے موسی ؑ کی طرف وحی دے کر بھیجا تھا ، کاش ! میں اس وقت توانا ہوتا ، کاش میں اس وقت زندہ ہوتا جب آپ کی قوم آپ کو نکال دے گی ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ کیا وہ مجھے نکال دیں گے ؟‘‘ اس نے کہا : ہاں جب کسی کو منصب نبوت پر فائز کیا گیا تو اس سے ضرور دشمنی کی گئی اور اگر میں نے تمہارا زمانہ پا لیا تو میں تمہاری زبردست مدد کروں گا ، پھر ورقہ جلد ہی وفات پا گئے اور کچھ عرصہ کے لیے وحی رک گئی ۔    متفق علیہ ۔

اور پھر جب غارِ حِراء جانا نبی (علیہ السلام) کا معمول بن گیا تو  وہ خادموں کو نہیں بلکہ خود پیغمبرِ اکرم (علیہ السلام) کے لیئے کھانے اور پینے کا سامان لے جاتیں اور ایک موقع پر اللہ کے حَبیب (علیہ السلام) نے سیّدہ خدیجہ کو ایک بشارت بھی سنائی جو آگے حدیث میں منقول ہے؛
                    6185 # مِشکوٰۃ المصابیح
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، جبریل ؑ نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے عرض کیا :’’ اللہ کے رسول ! خدیجہ ؓ آ رہی ہیں ، ان کے پاس ایک برتن ہے جس میں سالن ہے اور کھانا ہے ، جب وہ آپ کے پاس آئیں تو ان کے رب کی طرف سے اور میری طرف سے انہیں سلام کہنا ، اور انہیں جنت میں خول دار موتی کے گھر کی بشارت دینا جس میں کوئی شور و شغب ہو گا نہ کوئی تھکن ہو گی ۔‘‘     متفق علیہ ۔

اعلانِ نَبُوّت کے بعد سیّدہ خدیجہ نے اپنی ساری مال و دولت نبی (علیہ السلام) کے ذِمّہ کر دی اور پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ والہ وسلم) نے وہ مال غریبوں، مِسکینوں اور ضرورت مندوں کی مدد میں لگا دیا.
جب اعلانِ نبوّت کے بعد قریش نے نبی (علیہ السلام) پر ظلم و ستمِ کا سلسلہ شروع کیا سیّدہ خدیجہ اُس وقت بھی اپنے شوہر حبیبِ کِبریاء (علیہ السلام) کے ساتھ ساتھ تھیں. اور پھر وہ وقت آیا جب قُریش نے ظُلم و سِتم کی اِنتہا کر دی اور بنو ہاشِم سے تمام تجارتی اور سَماجی تعلقات منقطع کر دیئے. اور اُن سب کو ایک گھاٹی میں محصور کر دیا جو شِعیبِ ابی طالب کے نام سے مشہور ہے. اِسی دوران بنو ہاشِم کے کئی افراد بھوک کی وجہ سے وفات پا گئے اور سیّدہ خدیجہ بھی اُن ہی میں سے تھیں، احادیث میں آتا ہے کہ وہ لوگ سوکھے پتّے کھاتے تھے.
انسانوں کا ایک دوسرے سے حَسَد کرنا فِطری عَمَل ہے اور عورتوں میں یہ عادت زیادہ عام ہے. اور سوکنوں کا ایک دوسرے پر حَسَد تو ایک الگ ہی بات ہے اور اسلام میں اِس پر گِرفت بھی نہیں اگر حَد سے تجاوز نا کیا جائے.
نبی علیہ السلام جتنی مُحبّت سیّدہ خدیجہ سے کرتے تھے اُتنی اور کسی بیوی سے نہیں کرتے تھے ایک موقع پر یوں روایت ہے؛
                     6186 # مِشکوٰۃ المصابیح
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، میں نے نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی کسی زوجہ محترمہ کے بارے میں اتنا رشک نہیں کیا جتنا خدیجہ ؓ کے معاملے میں کیا ، حالانکہ میں نے انہیں دیکھا نہیں ، لیکن آپ اکثر ان کا ذکر کیا کرتے تھے ، بسا اوقات آپ بکری ذبح کرتے پھر اس کے ٹکڑے کرتے پھر انہیں خدیجہ کی سہیلیوں کے ہاں بھیجتے تھے ، کبھی کبھار میں آپ سے یوں عرض کرتی : گویا دنیا میں خدیجہ کے سوا کوئی عورت ہی نہیں ، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فرماتے :’’ وہ ایسی تھیں ، وہ ایسی تھیں اور ان سے میری اولاد ہے ۔‘‘     متفق علیہ ۔

سوائے ایک بیٹے کے نبی (علیہ السلام) کی تمام اولاد سیّدہ خدیجہ سے ہے، جن میں دو بیٹے قاسِم اور عبداللہ اور چار بیٹیاں زینب، اُمِّ کُلثوم، رُقیّہ اور فاطمہ زہراء شامل ہیں.

نبی (علیہ السلام) سیّدہ خدیجہ کو یاد کر کے اکثر رویا کرتے تھے اور جب آپ (علیہ السلام) کے سامنے حضرت خدیجہ کا ذکر کیا جاتا حتیٰ کہ اُن کی کوئی چیز بھی حضرت (صل اللہ علیہ والہ وسلم) کے سامنے آتی تو اُن کو یاد کر کے رونے لگ جاتے.
                   5841 # مِشکوٰۃ المصابیح
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، جب مکہ والوں نے اپنے قیدیوں کی رہائی کے لیے فدیہ بھیجا تو زینب ؓ نے ابوالعاص (اپنے خاوند) کے فدیہ میں مال بھیجا اور اس میں اپنا ہار بھی بھیجا جو خدیجہ ؓ کا تھا جو انہوں نے انہیں ابوالعاص کے ساتھ شادی کے موقع پر عطا کیا تھا ، جب رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس (ہار) کو دیکھا تو ان (زینب ؓ) کی خاطر آپ پر شدید رقت طاری ہو گئی اور آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ اگر تم مناسب سمجھو تو اس کی خاطر قیدی کو رہا کرو اور اس کا ہار بھی واپس کر دو ۔‘‘ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا : (اللہ کے رسول !) ٹھیک ہے ، اور نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ابوالعاص سے یہ عہد لیا کہ وہ زینب کو میرے پاس (مدینہ) آنے کی اجازت دے دے ، اور رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے زید بن حارثہ ؓ اور انصار کے ایک آدمی کو (مکہ) بھیجا تو فرمایا :’’ تم دونوں یا حج کے مقام پر ہونا حتی کہ زینب تمہارے پاس سے گزریں تو تم اس کے ساتھ ہو لینا حتی کہ تم انہیں (یہاں مدینہ) لے آنا ۔‘‘       ، رواہ احمد و ابوداؤد ۔

سیّدہ خُدیجہ نے کبھی کسی بُت کی عبادت نہیں کی تھی.
قُرآن پاک میں اللہ رحیم نے نبی (علیہ السلام) کی ازواج مُطّہرات کو اُمّت کی ماں کہا ہے اور سیّدہ اِس لحاظ سے مومنوں کی ماں بھی ہیں.
سیّدہ خدیجہ کی زندگی مسلمان عورتوں کے لیئے ایک بہترین نمونہ ہے کہ اُنھوں کس طرح اپنی مال و دولت اور آسائشوں کو اللہ کریم، اُس کے رسول (علیہ السلام) اور اِسلام کی خاطر قربان کر دیا اور آخرت کی کامیابیاں حاصل کر لیں.

سیّدہ خدیجہ کی وفات نبُوّت کے دَسویں سال 10 رمضان المبارک میں ہوئی اور اُن کو مکّہ کے قبرستان جو مَقْبَرَة ٱلْمَعْلَاة‎ کے نام سے مشہور ہے وہاں مدفون کیا گیا. اُسی سال نبی (علیہ السلام) کے چچا ابُو طالِب نے بھی وفات پائی اور نبی (علیہ السلام) نے اُس سال کو عامُ الحُزن (غَم کا سال) قرار دیا.

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔