خان صاحب، کیا اب بھی نہ گھبرائیں؟

اقبال خورشید

جناب، آپ نے کہا تھا، گھبرانا نہیں ہے۔ اور ہم نے آپ کے کہے پر عمل کیا۔
آپ کے ارشادات پر سر تسلیم خم کیا، انھیں بیش قیمت جانا، لکھ کر دیوار پر چسپاں کردیا۔

آنے والے عرصے میں چند سانحات رونما ہوئے۔ ہم تھرتھرائے، لڑکھڑائے، مگر قطعی نہ گھبرائے۔

مہنگائی آئی، پریشانیاں لائی، مصائب بڑھے، ڈالر کی قیمت، پیٹرول کے نرخوں میں اضافہ ہوا، اشائے خورونوش کی قیمتیں اوپر گئیں، مگر ہم فقط مسکرائے۔ بحران آئے۔ پالیسیاں ناکام ہوئیں، وزرا کے غیر محتاط بیانات نے مایوسی بڑھائی۔ آپ کے الفاط بھی متنازع ٹھہرے مگر جناب، ہم قطعی نہیں گھبرائے۔

البتہ اب، جب کورونا نامی وائرس ہماری سرحدیں پھلانگ کر پاکستان میں نہ صرف داخل ہوگیا ہے، بلکہ اس کے خوف نے کھلبلی مچا رکھی ہے۔ جزوی لاک ڈائون ہے، ریسٹورنٹ بند، تعلیمی اداروں میں خاموشی، شاپنگ مالز میں سناٹا اور شہر کی سڑکیں سنسان ہیں ۔ ۔ ۔ ایسے میں تھوڑی گھبراہٹ ہوتی ہے۔

قصہ کچھ یوں ہے کہ چین میں کہرام مچانے کے بعد یہ وائرس پوری دنیا میں پھیل چکا ہے۔ اٹلی جیسے ملک میں، جہاں صحت کا موزوں نظام موجود ہے، بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہوئیں۔ امریکا جیسی سپرپاور بھی لرز رہی ہے۔ برطانیہ، جرمنی اور فرانس میں خوف ہے۔ دولت کی فراوانی کے باوجود عرب ممالک نے احتیاط ہی کو بہترین علاج پایا۔
مگر ہمارا کیا ہوگا جناب؟

پاکستان میں بنیادی سہولیات کا فقدان، ہر شعبے میں نااہلی عروج پر، پھر کرپشن کا چلن۔ سنجیدگی کا فقدان۔

سندھ حکومت سے ہم بھی شاکی، مگر اس نے کم از کم اس معاملے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے کی تو کوشش کی، مگر باقی صوبوں کی جانب سے اس طرح کی پھرتیاں نہیں دکھائی گئیں۔

آپ کی تقریر کا شکریہ، مگر یہ تقریر ہمیں کتنا دلاسہ دے سکی؟ 263 کیسز کی تصدیق کے بعد اس نے ہمیں کتنا اطمینان مہیا کیا؟ اگر جانا چاہتے ہیں، تو ہمارے گھروں میں چلے آئیں۔

سچ تو یہ ہے کہ ہم ایک مشکل میں پھنس چکے ہیں۔ ہمارے دروازوں، کھڑکیوں پر کورونا نامی ڈکیت کا خوف دستک دے رہا ہے۔ ہم یرغمال بن چکے ہیں۔

آپ کے ناقدین کا خیال ہے کہ پاکستان میں کورونا کے پھیلائو کے پیچھے وفاقی حکومت کی غفلت ہے۔ آپ کے قریبی ساتھیوں پر تنقید کی جارہی ہے۔ ممکن ہے، وہ ذمے دار نہ ہوں، مگر کسی سے تو غفلت ہوئی ہے۔

چین میں کورونا پھیلنے کے بعد ہم نے ادھر مقیم اپنے پاکستانی طلبا کو تو واپس لانے سے انکار کر دیا تھا، لیکن اگر ایران میں موجود زائرین میں یہ وائرس تھا، تو انھیں پاکستان آنے کی اجازت دینے سے قبل کیا مناسب جانچ کی گئی؟

کیا تفتان بارڈر پر ہم سے بڑی غلطی نہیں ہوئی؟ کیا وسائل سے محروم بلوچستان حکومت کو معاونت فراہم کی گئی؟ اور جن زائرین کو داخلے کی اجازت دی گئی، کیا ان کا فالو اپ کیا گیا؟

دست بستہ عرض کروں، ان سوالوں کا جواب نہ میں ہے۔

صوبائی سطح پر ڈیزائسٹر مینجمنٹ کے ادارے (PDMA) درکار قابلیت ہی نہیں رکھتے۔ یہ بھی سوچنا ہوگا کہ کیا اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کو مہیا کردہ اختیارات، وہاں کے عوام کے لیے سودمند ثابت ہوئے۔
بلوچستان میں قرنطینہ کو جدید ترین سہولیات مہیا کی جانی چاہی تھیں۔ صوبوں کی جانب مزید توجہ کی ضرورت تھی۔ پھر اس معاملے میں وفاق اور صوبوں کے درمیان رابطے کا واضح فقدان رہا۔ اسٹریٹجی کی تیاری میں بھی سنجیدگی کی کمی نظر آئی۔

صوبوں کو کچھ شکایات ہیں۔ اگر یہ شکایات غلط ہیں، اور آپ نے درکار اشیا اور آلات فراہم کردیے ہیں، تو وضاحت دیجیے۔

حکومت پاکستان کو اس بڑے بحران سے نمٹنے کے لیے بڑی ذمے داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔

اور جب تک یہ نہیں ہوتا۔ برائے مہرانی، ہمیں تھوڑا گھبرانے کی اجازت دیجیے۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔