اسرائیل کی نئی حکومت اور اس کی دو رخی پالیسی

زاہد حسین

اسرائیل کی جانب سے عالمی سطح‌ پر اپنا اثر رسوخ بڑھانے کا سلسلہ ایک بار پھر تیز ہوگیا ہے، لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اسرائیلی حکومت کی جانب سے دو رخی پالیسی اختیار کی جارہی ہے۔ ایک جانب نو منتخب حکومت کے اسرائیلی وزیر خارجہ یائیر لپید اسلامی ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات کی بحالی کے باضابطہ اقدامات کے لیے آئندہ ہفتے متحدہ عرب امارات پہنچ رہے ہیں اور دوسری جانب نئے اسرائیلی وزیراعظم نفتالی بینیٹ سابق اسرائیلی حکمرانوں کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے فلسطینیوں کو دھمکیاں دے رہے ہیں۔ عالمی میڈیا کے مطابق وزیراعظم نفتالی بینیٹ نے دھمکی دی ہے کہ اب ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے اور وہ اب غزہ سے مزید راکٹ فائر کرنے کو برداشت نہیں کریں گے۔ انہوں نے غزہ میں موجود فلسطینی مجاہدین کے خلاف کارروائی جاری رکھنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ کسی دباؤ میں نہیں آئیں گے۔ دہری پالیسی اختیار کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا ہے کہ وہ غزہ کی پٹی کے رہائشیوں کے ساتھ کسی قسم کا تنازع نہیں چاہتے۔ جو ہم پر حملہ نہیں کرتے ہم بھی نہیں نقصان نہیں پہنچائیں گے۔ یہ باتیں انہوں نے پہلے سیکیورٹی اجلاس کے بعد جاری کردہ ایک بیان میں کہی ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں جب کسی اسرائیلی وزیراعظم نے فلسطینیوں کو دھمکی دی ہو۔ تاریخ گواہ ہے کہ اسرائیل کا رویہ فلسطینیوں کے ساتھ ہمیشہ ہتک آمیز رہا ہے۔ نئے وزیراعظم نے نہ صرف فلسطینیوں کو دھمکی دی بلکہ انہوں نے ایران کو بھی دہشت گرد قرار دیتے ہوئے نئے ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے انتخاب کو عالمی طاقتوں کے لیے ویک اپ کال قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ دنیا ایران کے خطرے کو پہنچانے۔ انہوں نے ایران کے جوہری پلانٹ پر بھی کڑی تنقید کی۔ 

دوسری جانب ایران کے نو منتخب صدر ابراہیم رئیسی نے بھی روسی وزیراعظم کے بیان کے بعد واشگاف الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ ایران اپنے میزائل پروگرام کسی طور ترک نہیں کیا جائے گا۔ ساتھ ہیں انہوں نے امریکی صدر سے ملاقات سے بھی انکار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ خطے کے عسکری گروپوں کی حمایت ترک کرنے کے معاملے پر کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے۔ ابراہیم رئیسی صدارت کا منصب سنبھالنے کے بعد اپنی پہلی پریس کانفرنس میں امریکی صدر جو بائیڈن کو جوہری معاہدے میں شمولیت کا مشورہ دیا اور کہا کہ ایران پرعائد پابندیاں ختم کر کے امریکا اپنی سنجیدگی ثابت کرسکتا ہے۔ امریکا سے اس سے کم پر کوئی بات چیت نہیں ہوگی۔

ایک جانب اسرائیلی وزیراعظم کی دھمکی اور اس کے جواب میں امریکی صدر کا ردعمل نئی کشیدگی کا سامان پیدا کررہا ہے اور دوسری جانب اسرائیل کے نئے وزیر خارجہ یائیر لپید متحدہ عرب امارات کے دو روزہ سرکاری دورپر روانہ ہورہے ہیں۔ وہ 29 جون کو متحدہ عرب امارات جائیں گے۔ اپنے دو روزہ دورے کے دوران ابوظہبی میں پہلے سفارت خانے اور دبئی میں قونصل خانے کا بھی افتتاح کریں گے۔ یہ کسی بھی اسرائیلی وزیر خارجہ کا امارات کا پہلا دورہ ہوگا۔ اسرائیلی وزیر خارجہ اپنے اماراتی ہم منصب سے ملاقات بھی کریں گے۔ دونوں ممالک کی جانب سے اس دورے کو خاص اہمیت دی جارہی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ یو اے ای اور اسرائیل کے اتحاد کے ثمرات سے سے پورے مشرق وسطیٰ کو فائدہ ہوگا۔ 

اسلامی ممالک میں اسرائیلی سفارت خانے کھلنے سے اسلامی ممالک بھی دو حصوں میں منقسم ہوتے نظر آرہے ہیں۔ گزشتہ اسرائیلی حکومت کے بارہ سالہ ظالمانہ دور کے خاتمے کے بعد امید کی جارہی تھی کہ اسرائیل چونکہ اسلامی ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کرنے جارہا ہے اس لیے اب اس کے رویے میں تبدیلی آئے گی لیکن نئے اسرائیلی وزیراعظم کی جانب سے فلسطینیوں کو دھمکی نے تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ 

اسرائیل میں نئی حکومت کے قیام کے باوجود پرانی پالیسی کے تسلسل کے بعد یہ ضروری ہوگیا ہے کہ اسلامی ممالک بھی اپنی پالیسی پر نظرِ ثانی کریں اور اسرائیل کے بارے میں نہ صرف کسی خوش فہمی میں مبتلا نہ ہوں بلکہ اس سے متعلق اپن نئی پالیسیوں پر بھی نظرِ ثانی کریں۔ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات سے متعلق پیش رفت امریکی ثالثی کا نتیجہ ہے۔ جب یہود و نصاریٰ مسلمانوں کے دوست نہیں ہوسکتے تو مسلمان ممالک کو بھی سوچنا ہوگا کہ امریکا اور اسرائیل کی اس کوشش کا جواب سفارتی طور پر کس طرح دیا جاسکتا ہے۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔