استقبال رمضان اور روایات کی بقاء
رمضان المبارک کا آغاز ہوتے ہی دنیا بھر کے تمام مسلمان سحر و افطار کے مختلف انتظامات اور اہتمام میں لگ جاتے ہیں یہ ماہ مبارک اپنے ہمراہ بے پناہ نور اور برکات لے کر آتا ہے، مساجد سمیت گھروں اور گلی کوچوں کی رونقیں بڑھاتا ہے اور آخر میں الوداعی جمعہ کو خوب رلا کر ایک چہیتے مہمان کی طرح اگلے سال آنے کا وعدہ کر کے رخصت ہو جاتا ہے۔ جاتے ہوئے اپنے پیارے میزبانوں کو بطور تحفہ خوبصورت عید دے کر جاتا ہے۔
یہ سال کورونا وائرس کی وبا اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے کچھ مختلف ضرور دکھائی دیتا یے مگر مسلمانوں کا استقبال رمضان اور جوش کسی طور کم نظر نہیں آتا۔ اللہ سے دعا ہے کہ رمضان کی برکات سے تمام عالم اسلام پرنور ہو کر جگمائے اور ہر غم بھول جائے۔ رمضان کا چاند اور اسکی آمد کی خوشی ہر دور اور ہر انداز میں مسلمانوں کیلئے باعث مسرت اور مبارک ہے اور رہے گی۔ استقبال رمضان صرف بچپن میں ہی پرجوش ہو کر نہیں بلکہ عمر اور زندگی کے ہر حصے میں اسی جوش کے ساتھ کیا جاتا ہے اور کیا جاتا رہے گا۔ زندگی کے صفحات روز بروز کتنے ہی رنگین اور خوبصورت نہ ہو جائیں مگر جب بھی انسان زندگی کے ورق پلٹنا شروع کرتا ہے اسکی زندگی کا سب سے پہلا خوبصورت باب اسکا بچپن دکھائی دیتا ہے اور وہ اپنی زندگی کی کتاب کے ان صفحات کو تڑپ تڑپ کر چومتا ہے۔
رمضان کی آمد پر اس سال میرا بھی دل چاہا کہ اپنے بچپن کے رمضان کے قصے اور داستان سب کو سناؤں ابھی عمر داستانیں سنانے جیسی تو نہیں ہوئی مگر ہم اہل انساں اپنی فطرت سے مجبور ہیں کہ کھویا ہوا بچپن کسی بہانے بھی سہی اپنی مہک سے سرشاد تو کرے۔ ویسے زندگی کے تین باب ہیں بچپن،جوانی اور بڑھاپا مگر جوانی دو اقساط پر مشتمل ہے کم عمری کی نادان جوانی اور پھر ذمہ دار اور سمجھ دار جوانی جو کہ عموما” بیس سال بعد ہی شروع ہوتی ہے لہذا’ آج جب میں اپنے بچپن کی سحر و افطار کا ذکر کرونگی تو یقینا” سب ہی سمجھدار اور ذمہ دار جوان اس سے لطف اٹھائیں گے۔
گزشتہ چند سالوں سے جو ٹی وی چینلز پر رمضان کی مختلف نشریات کا شور ہے پہلے وہ شور نہ تھا بلکہ سحری کیلئے کچھ علاقوں میں ڈھول بجا کر روزے کیلئے جگایا جاتا تھا اور زیادہ تر سحری کا آغاز سائرن سے ہوتا تھا جسکے بعد مختلف مساجد سے اعلانات کی آوازیں گونجنے لگتی تھیں۔حضرات سحری کا وقت ہو گیا ہے جلدی جلدی اٹھ جائیں اور سحری کر لیں۔اور پھر سحری ختم ہونے کا وقت بتایا جاتا تھا۔ میرے بچپن کی خاص بات یہ تھی کہ مسجد ہمارے گھر کے تقریبا” برابر اور اتنی قریب تھی کہ برآمدے کی کھڑکی کھولو تو باجماعت نماز ہوتی ہوئی دکھائی دیتی تھی لہذا’ ہم بچے سحری کے وقت مسجد میں جا کر نعت پڑھنے کیلئے بیٹھ جاتے تھے سحری کے اعلانات کے درمیان جب نعتیں پڑھی جاتی تھیں تو اپنی باری آنے پر نعت پڑھنے کی خوشی ہی الگ ہوتی تھی، اسی طرح جب شب قدر کیلئے مسجد میں چندہ جمع ہوتا تھا جب بھی ہم مسجد کی جانب نعتیں پڑھنے دوڑتے تھے۔اس وقت مسجدوں اور گھروں میں سحری کی رونقیں دکھاوے سے پاک ہوتی تھیں ہم میں سے کسی کو بھی فیس بک،ٹویٹر یا کسی اور سوشل میڈیا پر اسٹیٹس ڈال کر سحر و افطار یا کسی عبادت کی نمائش کی ضروری نہ ہوتی تھی نہ ہی واٹس اپ پر رشتہ داروں اور دوستوں کو مبارکباد دے کر عبادت کا دکھاوا ہوتا تھا۔بغیر موبائل زندگی نمائش سے پاک تھی ۔
بلکہ اس وقت سب کو یہ فکر رہتی تھی کہ اس سال رمضان میں قرآن پاک کتنے پورے کرنے ہیں،ماسیوں کا رواج عام نہ ہونے کی بناء پر خواتین خود ہی رمضان سے پہلے گھروں کو رگڑ رگڑ کا چمکانا شروع کر دیتی تھیں۔گھر پر ہی مختلف پکوانوں کی تیاریاں کی جاتی تھیں زندگی آن لائن آرڈر اور بازار کے ناقص تیل میں بنے کھانوں سے پاک تھی۔ہمارے جیسے شرارتی بچے بھی رمضان آتے ہی فرمابردار اور سچے پکے مسلمان ہو جایا کرتے تھے۔شام کو افطار کی ٹرے مسجد لے جانے اور افطار پلیٹس محلے کے گھروں میں بانٹنے کا انتظار رہتا تھا ہر بچہ دوسرے بچے سے زیادہ روزے رکھنے کا مقابلہ کرتا تھا اور اس ہی مقابلے،نادانی اور مزاق میں اسکا رجحان دین کیلئے بڑھ کر عبادت میں بدل جاتا تھا ہمیں بھی جوش آیا چار سال کی کم عمری میں روزے کا شوق اور ضد چڑھی تو والدہ مرحومہ نے سحری کی دعا کی جگہ افطار کی دعا پڑھا دی اور ہم اتنے نادان کہ اسکو روزہ سمجھ کر بیٹھے رہے پھر جب بھوک سے حالت خراب ہوئی تو بہر حال پھر وہ روزہ کھول ہی لیا اسکے بات کبھی ایک داڑھ کا اور کبھی آدھا دن کا روزہ رکھ کر خود کو بہلاتے رہے پھر ایک دن ان تمام تجربات کے بعد سات سال کی عمر میں ہمارے پہلے روزے کا وقت آہی گیا جب ہمیں سحر و افطار کی دعا اور نماز سکھا دی گئی تھی اور بتا دیا گیا تھا کہ روزہ فاقہ یا دکھاوا نہیں عبادت اور صبر کا نام ہے پہلا روزہ بچپن کی خوبصورت یاد جو کہ روزہ کشائی کہلاتا تھا۔
بچپن کے رمضان کی دو خوبصورت یادیں جو بھولائے نہیں بھولی جا سکتی ہیں ایک روزہ کشائی کا اہتمام اور دوسرا آخر کے روزوں میں عید کارڈز اور تحائف کی تیاری کا سلسلہ جسکا آج بھی کوئی مول نہیں۔اس وقت دکھاوا نہیں مگر برکتیں بہت تھیں سب کے دل کشادہ، رشتوں کا احترام اور محبتیں قائم تھیں بڑوں کا ادب برقرار تھا۔پہلے روزے کی سحری کا اہتمام بھی افطار سے کم نہ ہوتا تھا آج بھی جب ذہن میں میری روزہ کشائی کا وقت آتا ہے تو لگتا ہے جیسے کل کی ہی بات ہو جب سحری کا بھی خاص اہتمام ہوا اور میرے مرحوم والدین ،مرحومہ نانی سمیت ددیال اور ننیال کے تمام بڑے رشتوں نے شرکت کی سحری میں ایسی رونق اور پکوانوں کی خوشبو جیسے دن نکلا ہوا ہو تمام بڑوں نے بہت پیار اور لاڈ سے سحری کروائی سارا دن بھر پور عبادت اور نماز میں گزار کر جب افطار کا وقت قریب آیا تو گھر دیکھ کر عید کا دن محسوس ہوتا تھا سب کے لبوں پر مسکراہٹ، ماہ رمضان سے محبت اور ایک ساتھ روزہ کھولنے کی خوشی چمک رہی تھی۔ میری روزہ کشائی کے تحائف کی بھرمار اور میرا گلہ ہاروں سے بھر جانا۔اس وقت بچوں کو اتنے ہار پہنائے جاتے تھے کہ بچہ ہاروں سے بھر جاتا تھا اور ہر تھوڑی دیر میں کوئی بڑا وہ ہار کم کرتا رہتا تھا تاکہ بچے پر وزن نہ بڑھے۔خوبصورت روایات کو برقرار رکھتے ہوئے امی نے اپنے غرارے کے دو پائنچوں میں سے ایک میرا شرارہ تیار کر دیا تھا اور دوسرا میری ہم عمر کزن اور سہیلی کا کیونکہ ہر تقریب میں ہم ایک جیسے کپڑے پہنا کرتے تھے۔میرے دوپٹے کے چاروں طرف امی نے خاص طور پر گوٹا لگایا تھا اس خوبصورت اہتمام سے تمام بچوں میں پہلا روزہ رکھنے کا شوق بڑھ جایا کرتا تھا بہر حال افطار کا وقت ہوا اس وقت تصاویر موبائل نہیں بلکہ کیمرہ سے بنا کرتی تھیں آج بھی میرے پاس اس وقت کی یادگار تصاویر موجود ییں۔خیر افطار کا وقت ہوا سائرن کے بعد اذان مغرب ہوئی میرے تایا مرحوم نے افطار کی دعا پڑھا کر کھجور میرے منہ میں رکھی اور سب نے مجھے کچھ نہ کچھ کھلا کر میرا پہلا روزہ افطار کروایا۔وہ عزتیں اور محبتیں اب کہیں کھو گئی ہیں۔آجکل لوگ ہر بات کو مہنگائی پر ڈال دیتے ہیں جبکہ پہلے رزق میں جو بے پناہ برکت تھی وہ اب ختم ہو چکی ہے جبکہ اب بھی لمبے لمبے دسترخوان ہیں مگر اس میں وہ ذائقہ و لذت نہیں اور سچائی گم ہو گئی ہے وقت کے ساتھ تبدیلی آتی ہے جو کہ ضروری بھی ہے مگر تبدیلی میں بے حسی بڑھ جانا اور انسانیت اور رشتوں کا ختم ہو جانا بہتر نہیں اور نہ ہی یہ ترقی ہے۔جو ملاقات ایس ایم ایس میں تبدیل ہو کر اب واٹس اپ بن چکی ہو اس میں وہ احساس کہاں سے آئے گا جو رشتوں کی گرمائش دیا کرتی تھی۔
زندگی کی مٹھاس ختم کر کے صرف تلخیاں حصے میں آتی ہیں سکون نہیں۔یاد ماضی کے صفحات کی یہ داستان سنانے کے پیچھے روایات کی بقاء کا ایک بہت بڑا مقصد ہے کیونکہ ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے بچپن میں،کرکٹ کھیل کر ،پتنگ اڑا کر،کنچے کھیل کر،پٹاخے پھوڑ کر ،لڈو اور کیرم کے ساتھ ایک بھرپور اور توانا بچپن گزارا مگر آج کا بچہ صرف کمپیوٹر اور موبائل سے آشنا ہے۔ہماری عمر کے تمام لوگ اس وقت ایک ایسے پل جیسی حیثیت رکھتے ییں جو دو نسلوں کو آپس میں جوڑتا یے کیونکہ اللہ نے ہمیں انیسویں صدی سے بیسویں صدی میں داخل ہونے کا اور وقت بدلتے دیکھنے کا اعزاز دیا یے اب یہ ہم پر ہے کہ ہم کس طرح اس اعزاز کا قرض اتاریں اور اپنے آباؤ اجداد کی دی گئی اسلامی تعلیمات اور خاندانی رویات کا تحفظ کریں گو کہ دور جدید کی عورت باہر نکل کر کماتی یے اور پہلے کی عورت کی طرح صرف گھر کی ذمہ داری نہیں بلکہ ڈبل ذمہ داری نبھاتی ہے۔
مگر اس دوڑتی بھاگتی زندگی میں کورونا وائرس نے بھی ہم سب کو مل بیٹھنے اور روایات کو ایک بار پھر سے زندہ کرنے کا موقع دیا ہے تو آئیے وعدہ کریں کہ اس رمضان ہم اس عہد کے ساتھ گزاریں گے کہ اپنے بچوں کی اچھی تربیت اور دین و دنیا کی تعلیم کے ساتھ ہمارے اجداد کی روایات کی بقاء کا بھی خیال رکھیں گے کیونکہ رشتوں کی اصل مٹھاس انکے سچے احساس سے ہے۔ہمارا وہی معصوم بچپن ہم اپنی اولاد کے سپرد کریں گے تاکہ یہ سلسلہ نسل درد نسل قائم و دائم رہے اللہ رب عزت تمام مسلمانوں کی خطاؤں کو معاف فرمائے اسی دعا کے ساتھ تمام عالم اسلام کو امن و سلامتی کا پیغام اور رمضان کریم مبارک۔