بلبل

 

حسب عادت آج بھی میں پرندوں کو روٹی کے ٹکڑے ڈالنے آیا تو دیگر پرندوں کے ساتھ ساتھ ایک بلبل بھی ان میں شامل تھا- آج دھوپ بھی اچھی ہے تو میں وہیں کھڑا ان پرندوں کو دیکھنے لگا اور اس شرماتے،ڈرتے اور نفاست سے دانہ اٹھاتے بلبل کو بھی- بچپن میں سلیبس کی کتاب میں پڑھا تھا کہ بلبل بہار میں گیت گانے اور باغ کی خوبصورتی دیکھنے میں مصروف رہا، جبکہ چیونٹی پوری بہار گرد و پیش سے بے خبر ،بہار کی رعنائیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ہوئے،قدرت کے نظاروں سے بے بہرہ بس خوراک جمع کرنے میں لگی رہی تاکہ جاڑا آئے تو اسے مشکل نہ ہو اور وہ بھوک سے نہ مرے- چیونٹی بلبل سے بھی کہتی کہ او بے خبر بلبل!بہار تو گزر جائے گی،تیری گلشن سے محبت کا اس وقت کا حال ہو گا جب جاڑا ہر شے کو اپنی لپیٹ میں لے گا،خزاں چھا جائے گی تو کیا کرو گے،پیٹ تو آخر پیٹ ہے،اس کا تندور کیسے بھرو گے؟ چیونٹی کا انداز بھی شاید کسی "جہاں زاد” سا تھا جو اسے یوں بے خبر اور مدہوش دیکھ کر، شانوں سے ہلاتی ہے اور کہتی ہے،
"حسن کوزہ گر ہوش میں آ
حسن اپنے ویران گھر پر نظر کر
یہ بچّوں کے تنّور کیونکر بھریں گے
حسن، اے محبّت کے مارے
محبّت امیروں کی بازی،
حسن، اپنے دیوار و در پر نظر کر”
مگر بلبل بھی تو بلبل ہی تھا،کسی "حسن” سے کم تو نہیں تھا ،یوں سارا موسم بہار اس کی محبت،اس کے گانے اور چہچہانے میں گزر گیا-
پھر ایک روز جاڑا اتر آیا،خزاں نے اپنے سیاہ پنجے باغ پر گاڑ دیے،درخت اور پھول سب ویران ہوئے،رنگ سارے اتر گئے اور وہ چیونٹی بھی اپنے بل میں دبک گئی- بلبل،حیران و پریشان کبھی ادھر اڑتا کبھی ادھر جا بیٹھتا،مگر بے رنگ اور خوشبو سے عاری ٹہنیاں اسے کیا تسلی دیتیں- مجبور ہوا،چیونٹی کے گھر آن پہنچا اور کھانے کو کچھ طلب کیا- چیونٹی نے کچھ کھانے کو دیا مگر رسم دنیا بھی نبھائی اور طعنہ دیا کہ بہار کیوں ہنستے گاتے گزار دی؟

اس سبق کا مطلب تو استاد نے سمجھا دیا تھا کہ آنے والے وقت کے لیے تیاری کرتے رہو- مگر اس سبق کے ساتھ استاد نے اس سوال کا جواب نہ دیا تھا کہ گر ہم بھی مشینوں کی مانند جتے رہیں،ہمہ وقت پیٹ کے تندور کو بھرنے کی جستجو میں رہیں تو پھر فطرت کی رعنائی،حسن اور خوبصورتی کہاں جائے گی؟اسے کون سراہے گا اور اس پر کون غور و فکر کرے گا؟اسی فطرت کے بیچ ہی تو خالق تک پہنچنے کا راستہ بھی موجود ہے- مگر استاد نے "بہت بولتا ہے تو،کیا تجھے مجھ سے زیادہ معلوم ہے” کہہ کر خاموش کروا دیا تھا- واقعی،”زمانہ، جہاں زاد وہ چاک ہےجس پہ مینا و جام و سبو
اور فانوس و گلداں
کے مانند بنتے بگڑتے ہیں انساں”
مگر آج جاڑوں کی اس خوب صورت صبح، بلبل کو یوں دیکھا تو احساس ہوا کہ کوئی بلبل جاڑوں میں بھوک سے نہیں مرا،بہار کو سراہنے والا،فطرت کی نگہبانی کرنے والا اور خالق کی تخلیق کے گن گانے والا یہ بلبل آج بھی زندہ ہے،جاڑوں نے اس کا کچھ نہیں بگاڑا- جو فطرت کے قریب رہا،فطرت اسی کو مضبوط بھی کرتی رہی اور اسی کی مدد بھی کرتی رہی-

لیکن، چیونٹی آج بھی چیونٹی ہی ہے،صدیوں سے بس ذخیرہ اندوزی کرتے کرتے اس کا من نہیں بھرا- کب گلاب کھلے،کب بلبل گایا اور کب رات کی رانی نے رقص کیا،اسے کچھ معلوم نہیں،وہ تو بس پیٹ کا تندور بھرنے کو فطرت سے بے بہرہ ہو گئی اور پھر اسی ذخیرے کو بڑھاتے بڑھاتے ایک روز کسی کے قدموں تلے کچلی گئی- یہ تکلیف دہ نظارہ بلبل بھی دیکھتا ہے اور اسے وہی کہتا ہے جو ایک حسن نے کہا تھا،

"عجب بات
کہ جذبات کا حاتم بھی مَیں
اور اشیا کا پرستار بھی مَیں
اور ثروت جو نہیں اس کا طلب گار بھی مَیں!
عشق سے کس نے مگر پایا ہے کچھ اپنے سوا؟
اے جہاں زاد،
ہے ہر عشق سوال ایسا کہ عاشق کے سوا
اس کا نہیں کوئی جواب

جاڑا آنا ہے،یہ جانتے ہوئے بھی بلبل گاتا رہے گا،چہچہاتا رہے گا اور فطرت کی دلکشی کو محسوس کرتا رہے گا، مگر چیونٹی بہار میں بھی خزاں کا خوف لیے تڑپتی رہے گی اور احساسات سے عاری ہو کر نہ تو گلاب کی مہک محسوس کر سکے گی اور نہ ہی رات کی رانی کا رقص اسے مدہوش کر پائے گا- یہی کہانی ہے اور یہی حقیقت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پرندے دانہ کب کا ختم کر چکے ہیں اور سامنے شاخ پر بیٹھے "ھل من مزید” کی صدا لگاتے ہیں، مگر اب دھوپ چبھنے لگی ہے اور خیال ٹوٹنے لگے ہیں- میں انھیں اگلی صبح آنے کا کہہ کر اٹھ آیا ہوں-

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔